نقلمندی

Posted on at


امتحان میں نقل کرنا ایک فائن آرٹ ہے۔ کیونکہ نقل وہی کر سکتا ہے جو پھرتیلا اور نقل کرنے میں ماہر ہو۔ نقل کے لیئے عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب نقل کے لیئے ذہن اور عقل کا استعمال کیا جاتا ہے تو یوں عقلمندی نقلمندی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ نقل ہمارے معاشرے میں تمام شعبہ ہاۓ زندگی میں شامل ہو چکی ہے۔ اس لیئے نقل کرنا جرم نہیں۔ اگر جرم ہے تو کوئی میرے سامنے آۓ اور دلیل کے ساتھ مجھے سمجھاۓ نقل شروع

دن سے ہوتی چلی آئی ہے۔

حتا کہ انسان کی اپنی شکل بھی پرائی لگتی ہے۔ یعنی اسکے قول و فعل میں یکسانیت نظر نہیں آتی۔ جسطرح بے اثر نقلی دوائیں ہمارے معاشرے میں عام ہے اسی طرح نقلی ڈاکٹر بھی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ اسی طرح لوگ اخبارات میں دوسروں کا کلام شائع کر کے نیچے اپنا نام لکھ دیتے ہیں۔ اور کتنے ایسے اشعار ہے جنکا پہلا مصرعہ انکا اپنا نہیں ہوتا۔ سائنس ، شاعری اور ادب میں بھی نقالی کا رجحان بڑھ چکا ہے۔ اسلیئے بے عمل انسان کے پاس بے عقلی بھی ہونی چاہیئے۔ کاش ایسے لوگوں کے لیئے نقلی ڈگری بھی ہونی چاہیئے۔ اور ایسے لوگوں کی صنعت پر ڈویژن کی جگہ المدد لکھا ہونا چاہیئے۔

ہمارے معاشرے میں نقل کے رجحان نے ہمارے سارے نظام خصوصاً تعلیمی نظام کو مفلوج اور کمزور بنا دیا ہے۔ مادیت پرستی کے عام ہونے سے لوگ نقالی اور دونمبر کاروبار کے ذریعے امیر بننا چاہتے ہیں۔ نقل نے ہمارے سارے نظام کو کھوکھلا کر رکھا ہے۔ نقل کی روک تھام کے لیئے قانون سازی ہونی چاہیئے۔ اور قانون پر سختی سے عمل درآمد ہونا چاہیئے۔ ملازمت یا ترقی کا انحصار ڈگری کے بجاۓ قابلیت پر کیا جاۓ

 

 



About the author

160