اظہارِ محبت

Posted on at


وقت ایک سمندر ہےاس کی لہریں دن اور رات ہے۔ ان لہروں میں ہم سب موجزن ہیں ۔ کبھی ساحل پر کبھی اتھاہ گہرائیوں میں۔ وقت سمندر کے پانی  کیطرح  تلخ ہے۔کیوں نہ ہو۔ یہ انسانی آنسوؤں کا ہی تو مجموعہ ہے۔ جب اس میں طوفان آجائے تو یہ بہت خطرناک ہوتا ہے۔اور جب سکون  میں ہو تو بھی اس کا اعتبار نہیں ،یہ رواں دواں ہے۔ کوئی ساتھ دے یا نہ دے  اسے کچھ پرواہ نہیں ۔ کوئی اجڑے یا بسے لاکھوں جانیں اس کی نذر ہوئیں۔ ہزاروں گھر برباد ہوئے۔ اور کئی بچھڑے ۔ تاریک رات کی حکمرانی  کا عروج ، ہر طرف سناٹا،  خوفناک ہوا  کے جھونکے ، عالم خوابِ غفلت میں مد ہوش، کبھی کبھی الو کی آواز سے فضا میں ارتعاش پھر وہی سکتہ، دور کہیں گھڑیال بارہ بجا رہا ہے۔اور میں تنہا تنہا، ستاروں سے کھیل رہی ہوں۔ ذرا سی آہٹ  پر دکھیا آنکھیں پگڈنڈی پر تیری دھندلی تصویر کا تعاقب کر کے مایوس لوٹ آتی ہیں۔ ۔۔۔


آج تو چاند بھی بے وفائی کر گیا۔ بالکل تیری طرح۔۔۔۔۔۔ گھپ اندھیری رات اور تیری یاد یہی میرا مقدر ہے۔ اچھا یہ تو بتا کبھی تو بھی مجھے یاد کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ مگر نہیں ۔۔۔ تو مجھے یاد نہیں کرتا۔۔۔۔۔ تو تو بے وفا ہے۔۔۔ تو جھوٹا تھا۔۔۔ تیرا پیار جھوٹا ہے۔ اس لیے مجھے اکیلا چھوڑ گیا ۔ نہیں نہیں  اس میں تیرا قصور نہیں۔ یہ میرے  نصیب کی بات ہے۔ کہتے ہیں نصیب روٹھ جائے تو کسی کا بس نہیں چلتا۔ ضدیں ٹوٹ جاتی  ہیں۔ بنا بنایا کھیل بگڑ جاتا ہے۔


جیسے توچپکے سے میری زندگی میں آیا تو بہا ر آگئی۔ میں نے تجھے ٹوٹ کر چاہا بے حد پیار دیا۔ اتنا کہ سب کچھ بھول کر تجھی کو سب کچھ سمجھا۔۔۔ پگلی تھی نا۔۔۔ اس لیے تجھے دیکھے بنا اک پل بیتنا گراں تھا۔ مگر تو پھر بھی داغ ِ جدائی دے گیا۔ تو نے سب کچھ بھلا  دیا۔ اف وہ دن ، وہ راتیں جو ہم نے اکھٹے گزاریں۔ گھنٹوں باتیں کرتے ، کسی کا غم نہ تھا۔ جب کبھی یا د آتی ہے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔  وہ تیرا میری زلف سے کھیلنااور وہ میرا محبت کے جوش میں تجھے سینے سے لگا لینا۔ تو نے تو سب کچھ بھلا دیا۔ مجھے محبت کو زنداں میں ڈال کر چلا گیا۔۔۔۔ سگند ل کہیں کا۔۔۔۔


میرا اب کوئی نہیں رہا۔ جو دکھ بانٹے۔ میں صحرائی پھول ہوں ۔ جسے نم چاہیے۔ میں نمی ہوں جسے کرن چاہیے۔ میں راز ہوں جسے رازداں چاہیے۔ میں ریت کی دیوار ہوں مجھے سہارا چاہیے ۔ مگر زندگی کی اندھیری رات میں یہ سب کہاں سے تلاش کروں۔  میری زندگی کا چاند ڈوب گیا ہے۔۔۔۔۔میری زندگی تپتا ہوا صحرا بن گئی ہے۔  سینے میں آگ ہے اور دل میں ملن کی آس۔ مجھے قرار چاہیے ۔۔۔۔ آ اور میرے سینے سے لگ جا۔۔۔ دل کو سکوں ملے اورآ نکھوں کو ٹھنڈک ۔۔۔۔۔ آ اور پیاسی زندگی کو جل تھل کر دے۔ آخر تو مجھے کیوں تڑپاتا ہے۔۔۔ تو آتا کیوں نہیں ہے۔۔۔ میرا اس دنیا میں کوئی نہیں جو باتیں کرے۔ میرے بالوں سے کھیلے۔ جسے میں سینے سے لگاؤں ایک بار آجا صرف ایک  با ر ۔۔۔۔۔۔  ہم پھر سے زندگی کا آغاز کریں۔ ماضی دھرائیں۔۔۔۔ پیار کریں۔۔۔۔ اور پھر کبھی نہ بچھڑیں۔۔۔۔ تیری دیوانی تجھے ملنے کے لیے بیتاب ہے۔ اپنے گھر سے نکل آ۔ اور ان بانہوں میں سمٹ جا۔۔۔ ۔۔ ہم ایک ہو جائیں ۔۔۔۔ اور پھر کبھی جدا نہ ہوں۔ آج میں اکیلی نہ رہوں گی۔   



  آج تجھے ضرور آنا ہوگا۔ اگر نہ آیا تو میرے "چاند"  کوئی "ماں" اپنے " بیٹے " سے اتنا پیار نہیں کرے گی۔



ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ



عمیر علی 


سابقہ بلا گز پڑھنے کیلئے کلک کیجئے



About the author

160