سر چشمہ علوم ہے میرے اقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات [حصہ اول]

Posted on at


 

سب سے پہلے مشیت کے انوار سے نقش روئے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم بنایا گیا

پھر اسی نور سے روشنی مانگ کر بزم کون و مکاں سجایا گیا

وہ محمد بھی احمد بھی محمود بھی حسن مطلق کے شاہد بھی مشہود بھی

علم و حکمت میں وہ غیر محدود بھی ظاہرا امیوں میں اٹھایا گیا

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ساری کائنات کے علوم و معارف کا خالق واحد و یکتا پروردگار عالم ہے۔ ہمہ جہت علم و حکمت کا منبع وہ خالق اکبر ہے جس کے ارادہ کن کی ہر وہ چیز مرہون منت ہے۔ جو کچھ ہمارے اذہان میں ہمہ قسم معلومات حواس خمسہ کی وساطت سے در آتی ہیں یا ساری کائنات ارضی وسماوی کے ازہان میں فراہم ہوتی رہیں گی ان تمام علوم و حکمت کو اس کے ذاتی مبلغ علم سے وہ نسبت بھی نہیں جو ایک شبنم کے قطرے کو بحر بیکراں کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ اگر وہی ذات بے ہمتا خود اپنے محبوب کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو رب ذدنی علما کی دعا یاد کرائے

دور جدید ہے ۔ جدید ٹیکنالوجی کا کون سا شعبہ تشنہ تکمیل ہے۔ وہ کون سی مسند ہے جس پر علم و فضل کے ماہرین حضرات لمبے لمبے شملوں کے ساتھ علوم و معارف کے دھنی نہیں بیٹھے ہوئے۔ ایم اے، ایم او ایل، پی ایچ ڈی، ایل ایل بی، ایم بی بی ایس، بار ایٹ لاء، بی بی اے، بی ڈی اے، پھر ان علوم جدید و قدیمہ میں سپیشلائزیشن کرنے والے بے حد و بے شمار ہیں لیکن ان جملہ غواصان بحر علوم و معارف میں کوئی دعوی نہیں کر سکتا کہ فلاں موضع کے حوالہ سے میری ذات حرف آخر ہے۔ "مستند ہے میرا فرمایا ہوا" اس کے دروازے پر چٹخنیان چڑھادی گئی ہیں اب کوئی مائی کا لعل علم کے ایسے موتی تلاش کر کے نہیں لا سکتا جو علم کے موتی اس سمندر میں سے میں تلاش کر کے لایا ہوں۔ پھر ایسا بھی کوئی شخص نہ ہو گا جو ایک شعبہ علم سے بھر پور آگاہی حاصل بھی کر لے اور اس موضع پر مستند ہو اس کا فر ما یا ہوا تو ضروری نہیں کہ وہ دیگر بے حد و شمار علوم پر بھی اتنی ہی دسترس رکھتا ہو ۔ کچھ علوم ایسے ضرور ہوں گے جن کے حروف ابجد سے بھی اس کو روشنائی نہ ہو لیکن میرے آقا میرے مولا میرے ہادی میرے مرشد معلم علم و حکمت علوم و بحر و بر اور فنون خشک و تر سے آگاہ میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ والہ وسلم

بار الہ میری زبان پہ یہ کس کا نام آیا

کہ میرے نطق نے بو سے میری زبان کے لئے

آپ نے جو فرمایا وہ حرف آخر ہے۔ وہ قانون لازوال ہے ۔ وہ اصول غیر متبدل ہے۔ وہ بات ہیروں اور لعل و جواہر کی کان ہے ۔ وہ بات نہ صرف کانوں میں رس گھولتی ہے بلکہ مشام جان ایمان کو معطر بھی کرتی ہے۔ ۔ وہ اپنوں اور بیگانوں کے لئے ایک مثال ہے۔ اپنوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک غیروں کے لئے مشعل راہ چودہ صدیوں سے نشتر تحقیق نے جو تحقیق کیا کوئی اس کی گر داراہ کو نہ پہنچ سکے ۔ عقل و خر داز ازل تا ابد اپنی گتھیوں کے سلجھانے میں الجھی ہوئی ہے۔ فلسفی دم بخود ہیں دانشورں کی دانش اس کا پانی بھرتی ہیں سائنس دانوں کے لئے وہ مینار نور ہیں ۔ حاکموں کے لئے تمثیل ۔ مفکر اپنی فکر میں متفکر کے کہنے والے نے کیا کہ دیا ۔ فصاحت و بلاغت کے امام اس کے حضور قانوں سیکھیں ۔ حاکم اس سے حکم لیں ہادی اس سے ہدایت مانگیں وہ راہبروں کے لئے انمٹ قانون چھوڑ گیا کہ اس کے منہ سے نکلے ہوئے لفظ ، غربت و افلاس کے ماروں کی ڈھارس ، امراء وزراء کے لئے انگیخت ، دنیا کی ہر ماں کے لئے ممتا کے جزبات کا مخزن ، کائنات میں ہر باپ کے لئے شفقتوں کا گہرا سمندر ، وہ بولیں تو قر آن کے پارے ، آیات، صفحات، سورتیں بنیں، وہ سوچیں تو ساری دنیا کے قبلے درست ہوں جائیں، وہ سوئیں تو دل جاگا کرے ، وہ جاگے تو جہان جاگے ، حکم دے تو درخت اپنے قد و قامت کے ساتھ جڑوں سے اکھڑیں اور حکم کی تعمیل میں بھاگ کھڑے ہوں۔ یعنی نباتات کے دل میں اس کی زبان کی تاثیر ، اس کی باتوں میں یتنی مٹھاس ، اتنی ڈھارس حوش و طیور اور بہائم آ کر اپنی بپتا سنائیں اور وہ ان کی بپتا سنے اور فریا د کو پحنچے۔



About the author

160