میرٹ اور لیڈرشپ

Posted on at


میرٹ اور لیڈرشپ


اللہ تعالیٰ نے انسان کو خدادار صلاحیتوں سے نوازہ ہے عقل ، اہلیت اور قابلیت جیسی صلاحیت دیکر اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کیا۔ انسان نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر زمین و آسمان کے رازوں کو آفشاں کیا اور  ہمہ جہت انہیں تسخیر کرنے میں مصروف عمل ہے۔



 اپنے اندر کی قابلیت کو اجاگر کرکے اس کا استعمال بھی ایک  صلاحیت ہے۔ جن معاشروں میں میرٹ کی فرنٹ لائن پر آنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ترقی و کامرانی ان کا مقدر ہوتی ہے۔  دنیا میں ہر شعبہ زندگی میں میرٹ کو ترجیح دی جاتی ہے اور اس کی بدولت ہم دنیا میں نت نئی ایجادات کا سنتے اور ان کے کمالات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں۔ ذرائع مواصلات ہو کہ آٹو انڈسٹری، سول انجیرنگ میں  عمارتوں کے دلکش ، پائیدار ڈیزائن یا ہزاروں فٹ گہرائی سے تیل و گیس دیگر قدرتی معدنی وسائل کا حصول انسان کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔



یہ ساری کامیابیاں انسان نے میرٹ کا زریں اصول اپنا کر ہی سمیٹیں۔  میرٹ کے اصول کی قدر آزاد قوموں کا خاصہ چلا آ رہا ہے۔آزاد ترقی یافتہ اور خوشحال قوموں نے اس اصول کو اپنے تمام شعبہ زندگی پر سختی سے لاگو کیا ہوا ہے۔ ملکی سطح پر تمام قومی اور نجی اداروں میں میرٹ کے اصول پر عمل کیا جارہا ہے جس پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں۔


پاکستان میں قومی اور نجی اداروں میں رشوت ستانی،  اقرارپروری اور دوست احباب کو نواشوں کی روایت نے میرٹ کے عظیم درخشاں اصول کو ہمیشہ سے نظر انداز کیا جس کے سبب قوم کی صلاحیتیں دبی کی دبی رہ گئی  اور قوم کو بہترین باصلاحیت افراد کی عدم دستیابی نے عوام کو گوناگوں مسائل میں دھکیل دیا ہے۔ یہ قوم کی بڑی بدقسمتی رہی ہےکہ جاگیردار و سرمایہ دار اور وڈیرہ و سرداری نظام نے معاشرے کو فرسودہ اور قدیم رسم و روایات میں جکڑا ہوا ہے اور ملک کی اکثر آبادی جو دیہاتوں میں آباد ہےغلامیت کے طوق میں بند ہے تعلیم و شعور و آگہی کے لئے درسگاؤں کا وجود نام نہاد ہے جہاں میرٹ جیسے عظیم اصول کا نام تک لینا جرم عظیم ہے۔ ہم اکثر اپنے بحث و مباحثے میں ملک کو درپیش مسائل میں لیڈر شپ کی کمی اور قومی اداروں میں نااہل افراد کے براجمان ہونے کا  بڑے دکھ اور افسوس کے انداز میں ذکر کرتے ہیں لیکن اپنے موضوع گفتگو کو کبھی اس کے پیچھے بنیادی محرکات کو جانے کی کوشش نہیں کی۔ میرٹ جیسے اصول پر عمل داری  کو اپنے ہی خاندان اور محلے کی سطح پر دیکھ لیں  ہم لوگوں نے کبھی باصلاحیت افراد کی کبھی نہ حوصلہ افزائی کی اور نہ ہی اُنہیں آگے آنے کا موقع فرہم کیا میرٹ کی بنیادی اساس پہلے خاندان محلہ ، گاؤں ، قصبہ اور پھر شہر و ملک ہے۔ قابل و ذہین پرخلوص شخص کے چناؤ میں ہمارے ارباب اختیار نے ہمیشہ سے جانب داری کا مظاہر کیا کہیں کمیشن و رشوت اور کہیں اقربا پروری نے میرٹ کے اصول کو روکے رکھا ہے۔  سارا معاشرہ ہی لاشعوری کی دلدل میں پھنسا ہے اور اپنے ذات کے خول میں محصور ہے۔  



ایک اچھے لیڈر و رہنما کو تلاش کرنے کے لئے قابلیت اور صلاحیتوں کی قدردانی ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے اعلیٰ سطح پر نظر دوڑائی جائے ہمارے کلیدی سیاسی جماعتوں کے زعماء نے میرٹ کی ہمیشہ سے دھجیاں اُڑائی ہیں۔ جس طرح پاکستان پیپلزپارٹی کہنے کو ایک قومی سطح کی پارٹی ہے جو عوامی خدمت کو اپنا نصب العین سمجھتی ہےآصف علی زرداری نے  بیس سالہ لڑکے کو جماعت کا چیرمین بنا دیا حالاںکہ ان کی پارٹی کے اندر باصلاحیت اور قابل لوگوں کی کمی نہیں ،پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما خورشید شاہ صاحب کو دیکھ لے سیاسی فہم و فراست و تدبر اور قومی مسائل و امور پر انہیں خاص ملکہ حاصل ہے جس کا مشاہدہ قومی اخبارات میں ان کے کالموں کو پڑھ کر باآسانی لگایا جاسکتا ہے۔



  دوسری طرف سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کو دیکھ لیں جو کسی صورت بھی اس عہدے کے لئے اہل نہیں ہے زرداری صاحب نے انہیں محض پارٹی کے لئے بے لوث خدمات کے صلے میں اس اہم قومی مسند پر بیٹھا دیا جنہیں صوبہ کے عوامی مسائل سے کوئی سروکارودلچسپی نہیں، ضلع تھر میں قحط سالی سے معصوم انسانوں کی ہلاکتیں اور کراچی شہر جسے ملک کی معشیت میں کلیدی حثیت حاصل ہے کے امن و عامہ کی دگرگوں صورت حال ان کی مسند ھذا پر براجمانی کی اہلیت کا منہ چاٹ رہی ہیں دوسری سیاسی جماعتیں بھی اسی طرح کے مسائل میں گھیری ہیں۔



قومی و نجی اداروں اور سیاسی جماعتوں میں قابل و باصلاحیت اور بے لوث خدمت کے جذبے سے سرشار افراد کا چناؤ اور اُن کی قدر و حوصلہ افزائی اور انہیں آگے آنے کے مواقعے فراہم کرنے سے قوم درپیش مسائل سے جان چھڑوا سکتی ہیں بلکہ قوموں کی دنیا میں عزت و وقار اور امتیازی حثیت بھی مل سکتی ہے۔ ترقی ، خوشحالی اور عزت پانے کے لئے میرٹ کے فطری اصول کی قدردانی ضروری ہے۔



160