مسلمانوں پر جب بھی کوئی مشکل وقت آیا ہے جب جب انھیں غلام بنانے کی کوسش کی گئی ہے تب ہی کوئی ایسا جوان ، ماں نے کوئی ایسا بیٹا جنم دیا ہے اس دھرتی کے لئے مسلمانوں کے لئے جس نے انھیں ہر ترہ سے فائدہ پہنچایا ہے . اسی طرح جب برصغیر میں مسلمانوں کے لئے زمین تانگ کر دی گئی ، انگریز مسلمانوں کے خون کا پیاسا بن گیا ، کسی بھی چھوٹی سی غلطی کے لئے انھیں مار دیا جاتا اور ان کے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی تب ہی مسلمانوں کے درمیان ایک ایسی شخصیت پیدا ہوئی جس نے مسلمانوں کے لئے ہر طرح سے محنت کی ان کے اندر ایک جذبہ ایک لگن اپنے لئے الگ وطن حاصل کرنے کی پیدا کی .
سر سید احمد خان ہی ہیں جنہوں نے یہ عظیم کارنامہ سر انجام دیا ١٨١٧ میں پیدا ہوے اور تعلیم حاصل کرنے کے بعد جیسے ہی ہوش سمبھالا تو مسلمانوں کے حال پر غور کرنے لگے انھیں پتا چل گیا تھا جب تک مسلمان تعلیم حاصل نہیں کریں گے انگریزی زبان سے نفرت کرتے راہیں گے تب تک مسلمان کبھی بھی آگے نہیں آ سکتے ان کی سوچ تھی کے کہیں ایسا نہ ہو کے مسلمان بس ان کے غلام بن کے گھاس کاٹنے والوں تک ہی محدود نہ رہ جایں .
ان کا کہنا تھا کے میں جب بھی کہیں عمدہ لوگ دیکھے پڑھے لکھے ، اچھے مکانات کو دیکھا یا مجہے جہاں کہیں بھی خوش بودار پھول ملے ہمیشہ ہی ایسی جگہ مجہے اپنی قوم یاد ہے کہ ہاے میری قوم ایسی کیوں نہیں . بس اسی ٹرپ اور لگن کو انہوں نے مسلمانوں میں پیدا کیا . اور آخر ایک دن ان کی کوشش کامیاب ہوئی اور مسلمانوں نے ایک وطن حاصل کر لیا .