جدید تعلیم کا حصول ایک خاموش انقلاب

Posted on at


جدید تعلیم کا حصول ، ایک خاموش انقلاب


پسماندہ ممالک اور خصوصاً مسلم ممالک کے عوام سے گزشتہ کئی دائیوں سے جاری سماجی اور معاشی ناانصافیوں کے سبب عوام کے دلوں میں پکنے والے لاوے نے اگلنا شروع کر دیا ہے۔  ہر جگہ آگ بھڑک رہی ہیں اور خون کی ندیاں بہائی جارہی ہیں ایک ایسا نظام حکومت لانے کے لئے جدوجہد ہو رہی ہے جو عوام کو انصاف تعلیم صحت اور ملک کے وسائل کے مساوی حقوق دے ۔



 نظاموں میں عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اصلاحات کے نفاذ میں غفلت کسی بھی ملک کے اندر تحریکوں اور بغاوت کو جنم دیتی ہے۔  ایسا ہی کچھ حال مملکت پاکستان کا ہے۔  وفاق اور چاروں صوبوں کے مراکز کے درمیان وسائل کی بندر بانٹ نے عوام کو شدید مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔  غیر منصافہ قومی دولت کی تقسیم کے شرمناک کھیل میں نام نہاد سیاسی رہنما جو عوامی طاقت سے قومی ایوانوں میں ٹھنڈے آسائشی ماحول میں مسائل کا حل جمہوری نظام کو سمجھتے ہیں اور  قومی اداروں کے اعلیٰ عہداران جو چند ٹکوں کے لئے آئے روز ضمیر کا سودا کرتے ہیں۔ جس سے عوام کو نااصافی ، اشیاء ضرویات کی گرانی ، بجلی کے بحران کے حل میں مجرمانہ غفلت نے عوام کے دلوں میں موجودہ نظام کے خلاف نفرت کو پیدا کیا ہے۔  کچھ باضمیر قومی سیاسی رہنما مظلوم عوام کو تبدیلی اور انقلاب سے نظام کی تبدیلی کی نوید سے سہارا دے رہے ہیں۔ انقلاب کا لفظ سنے بولنے میں میٹھا اور دلچسپ تو نظر آتا ہے لیکن انقلاب سے نظاموں کی تبدیلی انسانی خون کی بہت بڑی قربانی مانگتتی ہے جس سے نظام زندگی کی رونقیں تہہ و بالا ہو جاتی ہے۔ گزشتہ صدی کے انقلابوں کی تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھے تو فرانسی انقلاب میں بیس لاکھ سے زائد لوگوں نے جان کی قربانی دی اور امراء کو بھیانک طریقے سے قتل کیا گیا۔  اسی طرح روس کے کمیونسٹ انقلاب کو بھی خون کی ندیاں بہا کر حاصل کیا گیا۔ یہی حال انقلاب ایران کا بھی ہے ہزاروں لوگوں کی قربانیوں کے بعد بھی ملک مسلسل تین سال تک خانہ جنگی کا شکار رہا۔



اس وقت ملک میں انقلاب کی بھڑکے مارنے والوں کو شاہد انقلاب کی اذیت ناک انجام سے بے خبری ہے لیکن عوام کو شدید نوعیت کے درپیش مسائل کی انتہا بغاوت اور تبدیلی کی راؤں کو ہموار کر رہی ہے۔ جاگیردار اور سرمایہ کار سیاسی گھرانوں نے سیاست کو میراث سمجھ لیا ہے جسے آمرانہ جمہوریت سے مماثلت دی جاسکتی ہے۔  اس وقت عوامی اضطراب کا پارہ لبریز ہے کئی قلم، اداریوں اور میڈیا کے استعمال سے حکمرانوں سے عوام بلواستہ اور بلا واسطہ دست گریباں ہے اور کئی بندوق کی نوک سے ، مقصد تو سب کا حتمی ہے ظالمانہ نظام سے عوام کو نجات دلانا ۔ اگر اس میں باضمیر متحرک عوامی قائدین ہوش کے ناخن لیتے ہوئے نظام کی تبدیلی کا راستہ خونی انقلاب سے ہٹ کر کریں اور جس طرح دنیا کے حکمرانوں نے نظاموں کی تبدیلی عوامی امنگوں اور خواہشوں کے مطابق اصلاحات کر کے کی ہیں اور اپنی قوموں کو ترقی کی شاہراؤں پر گمزن کیا ہے ممکن ہو سکتا ہے۔  ان حکمرانوں میں جنوبی افریقہ کے رہنما انجہانی نیلسن منڈیلا اور ملائشیا کے رہنما ڈاکٹر مہاتیر محمد کی بہترین مثال دی جا سکتی ہے۔



اسلامی دنیا میں ڈاکٹر مہاتیر محمد کو اُن کی قوم کے لئے خدمات اور ملائشین قوم کو مہذب دنیا میں بلندمقام و امتیاز دلانے کی وجہ سے بڑی قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آپ نے اپنی قوم کوترقی یافتہ قوم بنانے کے لئے خونی انقلاب اور تشدد کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے خاموش انقلاب کی راہ اپنائی۔ آپ نے تعلیمی نظام میں عصرحاضرہ کے تقاضوں کے مطابق کرنے اور عام آدمی کی دسترس میں لانے کے لئے یکساں نظام تعلیم لاگو کرنے اوراس میں عصر حاضر کے مطابق جدید اصلاحات کیں اور سکولوں ، کالجوں اور اعلیٰ تعلیمی درسگاؤں کا قیام ملک کے طول عرض میں کیا اور ملک میں تعلیمی انقلاب برپا کیا۔  یکساں تعلیمی نظام نے ملک سے طبقاتی نظام کوختم کر کے امیر اور غریب کے فرق کو مٹا دیا ، اس کے ساتھ ملکی سطح پر میرٹ ، اہلیت و قابلیت کی بنیاد پر افراد کو قومی اعلی ذمہ دارنہ مسندوں پر براجمان کیا۔ جن کی قابلیت کی بدولت ترقی و خوشحالی کے حصول میں آسانی ہوئی۔



ڈاکٹر مہاتیر محمد نے دوران حکمرانی  تمام معاشرے میں  قانون کی بلادستی پر سختی سے عمل کرایا،  انصاف و عدل کے حصول کو عام و خاص کے لئے برابر اور سستا کر دیا۔ آپ نے دنیا کو ترقی کا راستہ علم کی روشنی کے حصول میں بتایا۔  آپ نے تیس سالہ دور حکمرانی میں سارا زور اپنی قوم کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں لگایا اور ابھی تک اپنے عہدے سے مستفی ہونے کے بعد بھی ملکی اور بیرون ملک کے  دنیا کے اعلیٰ تعلیمی اداریں آپ کو لیکچر دینے اور اپنی قوم کی ترقی کے راز افشاں کرنے اور کامیاب تجربات  کے لئے مدعوں کرتے ہیں  اس دوران آپ کے سارے بیانوں کا لب لباب جدید حصول تعلیم پر ہی ہوتا ہے۔


خاموش انقلاب تعلیم و شعور و آگہی سے ممکن ہے اور  اصلاحات کا نفاذ اور تعلیمی نظام میں یکسانیت قابلیت و اہلیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اعلیٰ قومی عہدوں کے لئے افراد کا چناؤ  کر کے محروم طبقوں سے احساس کمتری دور کرنے کے ساتھ قوم ترقی کے سفر کو آسانی سے طے کرسکتی ہے۔



160