حضورﷺ کا سفر ہجرت(حصہ سوئم

Posted on at



حصہ اول اور دوئم پڑھنے کے لیے ان لنکس پر کلک کریں۔


حصہ اول:http://www.filmannex.com/blogs/249004/249004


حصہ دوئم:http://www.filmannex.com/blogs/250554/250554


دیکھو مدینہ کی طر ف دو سانڈنی سوار جارہے ہیں۔ ان کی صورتیں شمع کی طرح جگمگا رہی ہیں۔ آفتاب کی تمازت سے کوئی کہ دے کہ اتنی تیزی نہ دکھائے کیونکہ سردار انبیاء اور امیر المومنین جا رہے ہیں۔غبار راہ سے کہو کہ اڑ کر ضائع نہ ہوجائے آنے والی نسلوں میں کروڑوں مسلمانوں کی آنکھیں اسے سرمہ بنانے کے لیے ڈھونڈیں گی مگر افتاب اور غبار نے نہ صرف ان خواہشوں کی تکمیل سے انکار کیا بلکہ بیش از بیش شدت اختیار کی۔ آخر دونوں سوار گرد غبار اور تمازت آفتاب سے مجبور ہو کر ایک سائے کو دیکھ کر رک گئے۔ یار غار نے سواری سے اتر کر زمین صاف کی اور چادربچھائی۔ آنحضرتﷺ ذرا سستانے کے لیے بیٹھ کئے۔ صدیق اکبررضہتلاش کر کے ایک چرواہے سے تازہ دودھ لے آئے۔ تھوڑا سا ٹھنڈا پانی ملا کر حضورﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ آنحضرت ﷺ نےاس سائے میں قدرے آرام پایا۔


جب آنحضرتﷺ کی تلاش میں ناکامی ہوئی تو قریش نے ذات گرامی گرفتاری کے لیے ایک انعامی اشتہار جاری کیا: جو محمدﷺ کو پکڑ کر لائے گا وہ ایک سو اونٹ انعام پائے گا۔ بہت سے بے کار اس اشتہار کو دیکھ کر قسمت آزمائے کے لیے نکلے ان میں س سراقہ بن جعشم بھی تھا۔ یہ غار سے عین روانگی کے وقت پہنچا اور بے تابانہ پیچھے لپکا۔ خدا کی حکمت کہ وہ قرب ہو آیا گھوڑے نے سکندری کھائی۔ سوار خود فرش راہ ہو گیا، تاہم سنھبلا اور ترکش سے فال کے تیر نکالے۔ قسمت سے نفی کا جواب پایا۔ انعام کی امید پر تقدیر سے لڑ جانے والا عرب مایوس نہ ہوا۔ پھر باگیں اٹھائیں۔ اب کے گھوڑا دلدل میں پھنس گیا۔ دل میں ڈرا کہ میں تو خدا کی قید میں پھنس گیا۔ پھر فال دیکھی مگر گواب خلاف امید پایا۔ سمجھا کہ یہ تو کچھ اور آثار ہیں چنانچہ نہایت عاجزی سے سرکار دو عالم کو آواز دی اور امان کی تحریر مانگی۔ حضورﷺ نے درخواست قبول فرمائی۔ حضرت ابوبکررضہکے خادم عامر بن فہیرہ نے جو ہمراہ تھا چمڑے کے ٹکڑے پر امن کا فرمان لکھ دیا۔ ساتھ ہی حضورﷺ فرمایا کہ "اے سراقہ! میں تو تیرے ہاتھ میں کسریٰ کے کنگن دیکھتا ہوں۔”اس وقت تو سراقہرضہ نے شاید اس بات کو خوش خیالی یا حوصلہ افزائی سمجھا ہو مگر اس کی زنکگی یعنی حضرت عمر رضہکے عہد میں ایران فتح ہو گیا۔ غنیمت میں سونے کے دو قیمتی کنگن آئے۔ آقاﷺکی پیش گئی غلاموں کو یاد تھی۔ حضرت عمررضہ نے سراقہرضہکو جو مسلمان ہو چکے تھے بلا کر وہ کنگن پہنائے۔ نبیﷺکی وہ بات جو کسی کے وہم و گمان میں نہ تھی آخر پوری ہوئی۔



سراقہ امن کی تحریر لے کر واپس ہوا تو راہ میں جو ملا اسے یہ کہ کر واپس کرتا گیا کہ اس راسےس پر آنحضرتﷺنہیں گزرے چاانچہ مدینہ کے یہ مقدس مسافر قدرے اطمینان لے کر انتہائی بے سر سامانی سے قطع منازل کرتے بڑھے۔ راستے میں حضرت زبیررضہشام سے سامان تجارت لے کر آتے ہوئے ملے۔ پاک پیغمبرﷺ اور نیک ساتھی کو اس پریشان حالی میں پایا۔بیش قیمت کپڑے پیش کیے جو اس بے سرو سامانی میں خوشی سے قبول کر لیے گئے۔ اس طرح آنحضرتﷺ منزل نہ منزل آٹھ دن میں سفر طے کر کے دارالامان مدینہ کے قریب پہنچے۔



حضورﷺ کی آمد آمد کا ذکر سن کر مدینہ میں خوشی کے گیت گائے جارہے تھے۔ جوں جوں وہ راحت افزا گھڑی جس نے اہل شہر کے دلوں کو رشک صد گلزار بنا رکھا تھا، قریب آ رہی تھی لوگوں کا والہانہ جوش پڑھتا چلا جاتا تھا۔ جب آفتاب مدینہ کی پہاڑیوں پر سونا بکھیرتا ہوا طلوع ہوا تو ہزاروں پیر و برنا اور خوش و خم ہستیاں اپنی امیدوں کے مرکز کو دیکھنے کے لیے نکلتیں۔ جی ہاں ذرا سا غبار اٹھتا دل امید سے دھڑکنے لگتے۔ جمال محبوب ﷺ کا جو نقشہ سن سن کر ذہن میں جما لیا تھا اس کی بنا پر ہر راہرد کو دیکھ کر یہ"وہ" کہتے کہتے تھک جاتے تھے۔ جوں جوں سورج چڑھتا جاتا تھا یہ کھوئے کھوئے پھرتے تھے۔ پہلے پہل تو دھوپ بھی مسرت خیز امید کی وجہ سے سنہری چاندنی معلوم ہوتی تھی مگر حضورﷺ کی آمد سے مایوس ہو کر دوپہر کو پھول سے چہرے کملا جاتے اور لوگ بڑی حسرت سے گھر واپس آجاتے تھے۔



 


ایک دن انتظار سے اسی طرح تھک کر لوگ گھروں کو واپس جا چکے تھے۔ اچانک ایک یہودی نے مدینہ کے بیرونی قلعے سے ان دو مقدس مسافروں کو دیکھا اور قرائن سے پہچانا کہ یہ وہی سواری ہے، چنانچہ اس نے پکار کر کہا: "اے گروہ عرب! اے دوپہر کو آرام کرنے والو! تمہاری خوش قسمتی کا سامان تو یہ آ پہنچا ہے۔" اس کی تیز آواز میں ، جو آسمان میں گونجی، شعر و موسیقی تو نہ تھی مگر وہ ایسی وجد آفرین ثابت ہوئی کہ لوگ مست ہو کر گھروں سے نکلے۔ مردوں نے جلدی جلدی ہتھیار سجائے عورتوں نے جوڑے بدلے تمام گھروں سے تکبیر کی آوازیں بلند ہوئیں۔ چہرے کی بشاشت اور لباس کی رنگا رنگی سے مدینہ دم بھر میں موسم بہار کے طاؤس کی طرح خوشنما پر پھیلائے نظر آتا تھا۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



About the author

Noor-e-Harram

i am nor-e-harram from Pakistan. doing BBA from virtual University of Pakistan. Filmannex is good platform for me to work at home........

Subscribe 0
160