اقبال اور اسلام

Posted on at


علامہ اقبال کے بارے میں یہ واقعہ مشہور ہے کہ آپ کو نوجوانی میں قرآن پاک کی تلاوت سے خاص رغبت تھی ایک روز آپ تلاوت قرآن رہے تھے کہ آپ کے والد محترم نے دیکھا تو کہا بیٹا قرآن پڑھتے ہو تو اپنے اوپر یہ کیفیت طاری کیا کرو کہ گویا قرآن کریم خود تم پر نازل ہو رہا ہے- ان الفاظ کا مطلب یہ تھا قرآن پڑھو تو سمجھ کر پڑھو یہ پیغام برحق خود تمہارے لئے ہے تاکہ تم اس پر عمل کرو، والد کے ان الفاظ کا اثر تھا، اقبال قرآن عظیم الشان کی تلاوت کے دوران اس قدر متاثر ہوتے کہ آنکھوں سے آنسو بہ نکلتے 
بعض اقبال ناشناس علامہ اقبال کو صرف ایک شاعر کی حیثیت سے دیکھتے ہیں اس کے برعکس اقبال حقیقی معنوں میں ترجمان حقیقت اور مفکر ملّت تھے 
اس دعوے کی دلیل یا ثبوت ہمیں اقبال کی مجموعی زندگی کے علاوہ ان کی عام گفتار اور کردار سے بھی ملتا ہے

خود اقبال کی بعض کتابوں کے نام اور نظموں کے عنوانات و موضوعات کی حقیقت کی شاھد ہیں- بال جبریل، ضرب کلیم، زبور عجم ایسے نام ہیں جو قرآن پر نظر رکھنے والے قاری ہی کے ذہن میں آسکتے ہیں 
اقبال کی کتابوں کے ناموں کے علاوہ ان کی شاعری کے اندر قرانی اصطلاحات قرانی قصص سے ماخوز ہیں 
قم باذن الله، لات و مانت، چراغ مصطفوی( ﷺ)، بانگ سرافیل، آتش نمرود، بتان آذری، تقدیر الہی، یوم النشور، نعرہ لا تذر ایسے لاتعداد الفاظ ہیں جو ہمیں اقبال کی شاعری میں نظر آتے ہیں 
حکیم محمد حسین عرشی ان فاضل بزرگوں میں شامل ہوتے ہیں جن کو اکثر اقبال سے قرآن کے مختلف موضوعات پر گفتگو کا موقع ملا، حکیم صاحب اقبال کی وفات کے بعد اپنے تحریر کردہ مضمون میں لکھتے ہیں کہ علامہ اقبال ایسی محفلوں میں جہاں قرآنی مسائل زیر بحث اتے تھے اپنے احباب کے سامنے قرآن کے دقیق مسائل پر اس سلاست روانی اور آسانی سے روشنی ڈالتے کہ بات پوری طرح نکھر کر سامنے آجاتی- اور پوچھنے اور سننے والے کے ذہن میں کسی قسم کا ابہام نہ رہتا 
ایک روز عرشی صاحب علامہ کی طرف جانے لگے تو ایک بزرگ حکیم طالب علی بھی ان کے ساتھ تھے، علامہ کی محفل میں جو مسائل زیر بحث آے عرشی صاحب کے الفاظ میں ملاحظہ کریں 
حکیم طالب علی نے سوره نجم کے پہلے رکوع کی تشریح دریافت کی- علامہ نے اس پر ایک طویل تقریر فرمائی بالخصوص فکاف قاب قوسین او ادنیٰ کی تفسیر اپنے رنگ میں عجیب نادر چیز تھی- آیات مذکورہ قرآن کے مشکل ترین مقامات میں سے ہیں

علامہ کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ ناسوت والاہوت یا عقلی و وحی یا عالم بشریت و عرش الواہیت کو دو کمان نما دائروں سے تشبیہ دی گئی ہے بشری عقل کا متنہاۓ کمال یہ ہے کہ وحی سماوی سے کامل مطابقت حاصل کرے یعنی اس ترقی یافتہ عقل کے رباب اوقات میں جو نغمہ نکلتا ہے وہ ساز الہام سے ہم آہنگ ہوتا ہے- اسی طرح یہ دو کمان کامل اتصال کے مقام پر پہنچ جاتے ہیں - ںوع انسان میں انبیاء بالعوم اور انبیاء میں حضور اکرم ( ﷺ) بالخصوص اس مقام کے آخری نقطہ میں واصل ہوے 
اس کے بعد علامہ نے فرمایا کہ اس تقریر کا یہ ہرگز شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ قرآن مجید (معاذ الله) نبی اکرم ( ﷺ) کی تصنیف ہے
وحی الہی میں فہم بشری کا کوئی دخل نہیں اس کی مثال یوں سمجھو کہ جرمنی میں ہمارے ایک پروفیسر علم ریاضی کے بہت زیادہ مشتاق تھے بعض اوقات طلبہ ان سے بہت مشکل سوالات کرتے تو کہتے کہ اس کے لئے دو ہفتے کی مہلت درکار ہے ان کے نزدیک جواب دینا آسان تھا لیکن سمجھانا دیر طلب تھا
علامہ اقبال نے ایک موقع پر سید سلیمان ندوی مرحوم کو لکھا 
اگرچہ یورپ نے مجھے بدعت کا چسکا ڈال دیا ہے تاہم میرا مسلک وہی ہے جو قرآن میں ہے ---- سید سلیمان ندوی کے نام خط ٩٣٢
اکبر الہ آبادی کے نام خط میں لکھ تھا 
واعظ قرآن بننے کی اہلیت تو مجھ میں نہیں ہے، ہاں اس کے مطالعے سے اپنا اطمینان خاطر روز بروز ترقی کرتا رہتا ہے ---- مکاتیب اقبال 
اقبال قرآن پاک کو ایک عملی چیز تصور کرتے تھے ان کی نگاہ میں فرمان خداوندی صرف غلاف اور طاق میں رکھنے کی چیز نہیں ہے بلکہ عملی طور پر اس کا نفاذ مطلوب ہے- اقبال کا پیغم دراصل قرآن کے پیغام کی شرح، وضاحت ہے مگر آج لوگ اقبال کے بعض اشعار اور فرمودات کو سیاق و سباق سے الگ کر کے انہیں اشتراکیت پسند کرنے کی جسارت اور عملی خیانت کا ارتکاب کرتے ہیں 

 



About the author

160