قرآن کی حفاظت کا انتظام - حصہ اول

Posted on at


حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کبار صحابہؓ میں سے تھے- دور عثمانی میں ایران و عجم کے مختلف محاذوں پر جہاد میں شریک ہوے تھے- انہوں نے اس دوران میں دیکھا کہ مختلف شہروں اور علاقوں میں قرآن مجید مختلف طریقوں سے پڑھا جا رہا ہے اور ہر ایک اپنے طریقے کو درست اور دوسروں کی قرات کو غلط تصور کرتا ہے- حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ یہ صورت حال دیکھ کر سخت پریشان ہو گئے اور جہاد سے واپسی پر انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے اختلاف قرات کی کیفیت اور اسے پیدا ہونے والے نتائج کی نشاندہی کی- بخاری کی ایک روایت کے مطابق حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے کہا
اے امیرالمؤمنین! امت مسلمہ میں یہود و نصاریٰ جیسا اختلاف ہونے سے پیشتر امت کو سنبھالئے



معاملے کی سنگینی کے پیش نظر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تمام صحابہؓ جمع کر کے تمام صورت حال ان کے سامنے رکھی- سب نے اس سلسلے میں وہی راۓ دی جو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی تھی، یعنی پوری امت کو ایک مصحف اور ایک قرات پر جمع کیا جائے- اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آدمی بیجھ کر ام المومنین حضرت حفصہؓ وہ مصحف منگوایا جو دور صدیقی رضی اللہ عنہ میں تحریر کیا گیا تھا، اس کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ جنگ یمامہ میں بہت سارے ایسے صحابہؓ شہید ہو گئے تھے جو پورے قرآن کے حافظ اور قاری تھے- حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خلیفتہ الرسول حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے سامنے خیال ظاہر کیا کہ جنگ نے شدید خونریزی کی صورت حال اختیار کر لی ہے اگر حفاظ کی شہادت کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو خطرہ ہے قرآن کریم کا ایک بڑا حصہ ہمارے ہاتھوں سے نکل کر گمنامی میں چلا جائے، اس لئے بہتر ہوگا کہ آپ اس کو جمع کرنے اور مرتب کرنے کا حکم دیں
خلیفتہ اول حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس مخلصانہ اور دور اندیشی کو پسند کرتے ہوے اس کام کے لئے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں ایک بورڈ مقرر فرما دیا- جس کے ارکان میں حضرت عبدللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، سعد بن عاص رضی اللہ عنہ اور عبدالرحمن بن حارث رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے، اس بورڈ کو ہدایت کی گئی تھی کہ اگر کسی لفظ کی املا کے معاملے میں تمہارے درمیان اختلاف راۓ ہو تو اس لفظ کو لغت قریش کے مطابق لکھا جائے کیونکہ قرآن زبان قریش میں نازل ہوا ہے- حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کاغذ اور کپڑے کے ٹکڑوں، کھجور کے پتوں اور لوگوں کے حافظے کی مدد سے ایک ایڈیشن مرتب کیا



قرآن پاک کا یہی نسخہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ رہا ان کی وفات کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تحویل میں آگیا ، اس کے بعد یہ نسخہ ان کی صاحبزادی ام المومنین سیدہ حضرت حفصہؓ کے پاس محفوظ رہا
اس مصحف صدیقی رضی اللہ عنہ کی سات نقلیں بڑی احتیاط سے تیار کروائی گئیں، ہر نقل پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دستخط ثبت کئے- حاتم صبحستانی کے مطابق مصحف کی یہ مستند اور مصدقہ نقلیں مملکت اسلامیہ کے جن مرکزی شہروں میں بیجھی گئیں ان کے نام یہ ہیں- مکہ معظمہ، کوفہ، بصرہ، دمشق، بحرین، یمن، اور ایک نقل مدینہ منورہ میں بھی رکھی گئی- امت میں انتشار و افتراق اور قرآن کے سلسلے میں ہر قسم کے اختلاف کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کی خاطر تمام غیر مستند نسخوں کو جمع کرا کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی موجودگی میں تلف کروا دیا




About the author

Maani-Annex

I am an E-gamer , i play Counter Strike Global Offence and many other online and lan games and also can write quality blogs please subscribe me and share my work.

Subscribe 0
160