تعلیم کا پاتال

Posted on at


معیار تعلیم پاکستان میں اس حالت نازک مرحلے میں ہے لہ اگر اردو ادب کے استاد سے پوچھا جائے کہ دیوان غالب کس کی تحریر ہے تو جواب "ندارد" ملتا ہے۔ ماسٹر آف فزکس (طبعیات) کو بجلی کا فیوز لگانا بھی نہیں آتا۔ ایم ایس سی بائیو کو پیٹ درد دوا کے بارے میں بھی نہیں معلوم۔ اس سے آپ کیا رائے دیں گے کہ بچوں کو تعلیم کیوں دی جاتی ہے؟ محض بڑے بڑے بورڈوں پر نام چھپوانے کے لئیے، معاشرے میں جس پر نظر دوڑائو ہاتھ میں ڈگریاں اور اسناد لیئے پھرتا  نظر آتا ہے۔


 
       پچھلے دور میں لوگوں کے پاس دگریاں کم ہوتی تھیں لیکن وہ وسیع ع عریض علم رکھتے تھے، لیکن اس موجودہ دور میں جس جاہل اور نکٹھو کو دیکھو ہاتھ میں ڈگریاں اٹھائے پھرتا ہے، جبکہ آتا واتا کچھ نہیں، پتہ یہ ڈگریاں وہ کیسے حاصل کر لیتے ہیں، نکل کر کے یا نوٹسوں سے رٹے مار کے؟ آج کل کسی سے پوچھو کیا تعلیم ہے؟ جواب آتا ہے ایم ایس سی فزکس، ایم ایس سی بائیو لیکن اگر پوچھا جائے کہ یہ ڈگریاں کیسے حاصل کیں تو جواب آتا ہے، گائیدز اور نوٹس پڑھ کر۔ لیکن انھوں نے کبھی ٹیکسٹ بک کی شکل بھی نہیں دیکھی ہوتی، لیکن ان کو سننے اور سنجھنے والا کون؟؟؟؟؟



  ہمارا نظام تعلیم زوال کی گہرائیوں کو چھو رہا ہے۔ حالانکہ کتاب سے بہتریں دوست اور اس جیسا بہتریں تحفہ کوئی نہیں لیکن ہماری کتابیں بھی ویسے ہی ہیں، جو نام کے پروفیسرز کی لکھی ہوئی چھپ جاتی ہیں اور نوجوان نسل کو تباہ و برباد کر دیا جاتا ہے کیونکہ ان کتابوں میں نہ علم ہوتا ہے اور نہ نہ ہی بصیرت و ہنر ہوتا ہے۔ انھیں جتنا بھی پڑھا جائے علم مین اضافہ نہیں ہوتا۔



    اللہ بھلا کرے الیکٹرانک میڈیا والوں کا، خاص کر ڈسکوری اور نیشنل جیو گرافک چینلز کے ایجاد کرنے والوں کا، جہاں سے وسیع پیمانے علم حاصل ہوتا ہے۔ اگر ایک گھنٹے کا ڈسکوری چینلپر کوئی پروگرام دیکھا جائے  تو پانچ چھ کتابوں کا علم حاصل ہو جاتا ہے۔ کتابوں کو غور و فکر سے پڑھنا پڑتا ہے لیکن ٹی وی چینل سے خواہ مخواہ ہی علم میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، کیونکہ وہ ہر پروگرام بڑی محنت سے آرگنائیز کرتے ہیں اور اس طرح سے پیش کیا جاتا ہے کہ لوگوں کی اس میں دلچسپی بڑھے، پس وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں، لیکن ہمارے نظام تعلیم میں ایسی بات نہیں، یہاں بچوں کو ڈنڈے کے زور سے پڑھایا جاتا ہے، جس میں بچوں کی کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔


       
   ہمارے نظام تعلیم کو برباد کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ کمزور اور غریب ملکوں کے تجارتی رویوں کا ہے، جو ملازمت کے لئیے معیار نہیں بلکہ صرف اور صرف ڈگری مانگتے ہیں، پس ہماری قوم بھی معیار نہیں بلکہ ڈگری کی دوڑ دھوپ میں لگی رہتی ہے۔  



About the author

zainbabu

My name is zain ul abidin. I am a player of gymnastic and karate. i joined bitlanders at 11th jan 2014.

Subscribe 0
160