ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کے حالات زندگی اور کا طرز تحریر

Posted on at


ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان جبل پور (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ سن ولادت 1911ء ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیا۔ اور وہاں سے ایم اے ایل ایل بی کے امتحانات پاس کیے۔ پیشہ ورانہ زندگی درس و تدریس سے شروع کی۔ اس سلسلہ میں آغاز سرمراؤتی (برار) کے کنگ ایڈورڈ کالج سے کیا۔ پھر ناگپور یونیورسٹی میں فارسی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور اردو میں ڈی لٹ کیا۔ پھر ناگپور یونیورسٹی میں درس و تدریس سے وابستہ ہو گئے۔ اور وہاں صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ پاکستان بنا تو اس مملکت خداداد کا رخ کیا۔ اور 1948ء میں یہاں آکر اسلامیہ کالج کراچی میں تدریسی خدمات انجام دیں۔1956ء میں سندھ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے پروفیسر اور صدرشعبہ اردو مقرر ہوئے۔ ان تمام درجات پر پہنچنے کےبعد بھی اس سادہ طبیعت بزرگ میں عاجزی انکساری اور دین داری کی خدمات نمایاں رہیں۔ ان کی تصانیف میں حالی کا ذہنی ارتقاء ، فارسی پر اردو کا اثر، ادبی جائزے، تحقیقی جائزہ، حضرت مجدد کا تحقیقی جائزہ ، اقبال اور قرآن اور علمی نقوش وغیرہ کے علاوہ قواعد کی کتابیں بھی شامل ہیں۔

عہد جدید میں ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان صاحب کا نام ایک معتبر محقق، مدبر، شاعر اور مفکر ہونے کے ساتھ ساتھ سلسلئہ نقشبندیہ کے صاحب کشف بزرگ کی حیثیت سے بھی مسلمہ ہے۔ آپ ایک ذی علم اور صاحب فکر شخص تھے۔ جن کی ذات ہزاروں لوگوں کے لیے رشدوہداہت کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔

ڈاکٹر غلام مصطفیٰ صاحب کی ذات کو خدا تعالیٰ نے دینی اور دنیوی دونوں حوالوں سے انسانیت کے لیے منبع فیض بنا کر بھیجا ہے۔  یا یوں کہیں کہ آپ کے ایک ہاتھ میں رسول اکرمؐ کی کتاب ہے تو دوسرے ہاتھ میں دنیاوی علوم۔ آپ دونوں حوالوں سے ایک یکتائے روزگار ہستی ہیں۔ اگر ڈاکٹر صاحب کو بحثیت شاعر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ خواجہ میر درد نقشبندی کی روایت آپ کے افکار میں پروان چڑھ رہے ہیں۔ ہر چند آپ کی شاعری بہت کم منظر عام پر آئی ہے۔ مگر جہاں جہاں بھی اس کے نمونے ملتے ہیں وہ معرفت الہیٰ سے ہر سر اعتبار سے بھرپور ہیں۔

ڈاکٹر صاحب اپنی ہمہ جہتی کے جن حوالوں سے جانے جاتے ہیں ان میں معتبر ترین حوالہ آپ کی تحقیق ہے۔ اور اس حوالے سے آپ نے وہ حیرت انگیز کام سرانجام دیے ہیں جو اب تک تشنہ تحقیق تھے۔ لسانیات سے لے کر شخصیات تک آپ کے تحریر کردہ مقالات اور مضامین نے اردو ادب کے لیے فکر کے نئے نئے دریچے وا کیے ہیں۔ ایک اور بات جو ڈاکٹر صاحب کی تحقیقی نثر کو دیگر تمام لوگوں سے منفرد اور ممتاز کرتی ہے وہ اس تحریر کی روانی اور نرم روی ہے۔ موضوع کیسا ہی خشک اور بے روح کیوں نہ ہو۔ آپ کے قلم کی زد میں آتے ہی پانی ہوجاتا ہے۔ اور بحث ایک دریا کی طرح رواں دواں قاری کی نظر سے ہوتی ہے اس کے ذہن میں اترتی چلی جاتی ہے ، یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا کوئی استاد ہے جو سامنے بیٹھا کسی مسئلے کی گرہیں کھولتا جارہا ہے۔ لہٰذا موضوع کی ثقالت یکسر نرم روی میں تبدیل ہوتی جاتی ہے۔



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160