تربیت سازی اور اعتماد سازی

Posted on at


تربیت سازی اور اعتماد سازی


عقل کل اللہ تبارک تعالیٰ کی ذات ہے اور انسان زمین پر اللہ تعالیٰ نائب خلیفہ۔  انسان اور حیوانوں کے درمیان سب سے بڑا تضاد عقل کا فرق ہی ہے لیکن عقل کے علاوہ انسانوں اور حیوانوں کی بیشتر خصوصیات مشترک ہیں بلکہ کئی ایک خصوصیات جانوروں میں بانسبت انسانوں سے زیادہ پائی جاتی ہیں۔ جیسے چیتا جو شکار کے تعقب میں 114 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک جا سکتا ہے جب کہ انسان کی اوسط رفتار 4 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔  سب سے عام چیز جو انسانوں اور حیوانوں میں مشترک پائی جاتی ہے وہ اپنی اولاد سے بے لوث محبت اور اُس کی حفاظت ہے اس کا مشاہدہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں اکثر کرتے ہیں۔ جانور اپنے بچوں کی جان کی حفاظت کے علاوہ اسے دنیا میں رہنے کا ڈھنگ بتاتے ہیں شکاری جانور شکار کے طریقے اور جان کی حفاظت کے کرتب بتاتے ہیں لیکن انسان کو تربیت میں ایک امتیازی حثیت  اپنے بچوں کی اخلاقیات کی تربیت کا درس ہے۔



پاکستان ایک پسماندہ ملک ہے اور آبادی میں ناخواندگی کی شرح زیادہ ہے جس سے معاشرتی زندگی میں کئی دوسرے مسائل بھی ہیں جس میں ئنی نسل کی کی تعلیم و تربیت میں اعمتاد سازی اور کردار سازی بھی ہے۔   بعض والدین اپنے بچوں سے بے لوث محبت میں بچوں کو اخلاقی درس کا سبق دینا بھول جاتے ہیں۔ والدین لاڈ پیار کا مطلب بچوں کی دل جوئی سمجھ بیٹھتے ہیں جو بچوں کی عادات کے بگاڑ کا موجب بنتی ہیں ، بچے ضدی اور ہٹ دھرم بن جاتے ہیں ،اصل مقصود لاڈپیار کا بچوں کے دل میں اعلیٰ اخلاقیات کو پیوست کرنا ہوتا ہے۔ اس ناسمجھی کے سبب بچے معاشرے سے مثبت رویے اپنانے کی بجائے بہت ساری منفی چیزیں سیکھ لیتے ہیں جو اُن کے درخشاں مستقبل کی بجائے انہیں آنے والی زندگی کی آزمائشوں میں گھیر لیتی ہیں۔ غیر اخلاقی قدریں بچے کے اندر خود اعتمادی کے خاتمے کا موجب بنتی ہیں۔ بچوں کا عمر میں اضافے  کے ساتھ بڑوں کے ساتھ ادب و احترام کو ملحوظ خاطر رکھ کر بات چیت کا ڈھنگ سکھا دیا جائے تو بڑوں کی طرف سے بھی اس بات کو خوب سرہایا جاتا ہے اور اس پزیرائی ملتی ہے جو بچوں کے اندر خود اعتمادی لاتا ہے جو اُس کی زندگی کے آنے والے پیچیدہ  تجرباتی مراحل میں کارآمد ثابت ہوتا ہے۔



 بچوں کو بات چیت کے علاوہ بھی کئی ایک دوسرے اخلاقی درس زندگی ہیں ، نظم و ضبط، تہذیب ، اچھے برے کی تمیز، بیھٹنے چلنے پھرنے اور کھانے پینے کے آداب۔ قریبی رشتہ داروں سے لیکر کر پڑوسیوں سے میل جول کے آداب۔  بچوں کو سکول کی زندگی میں بڑے تلخ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اگر وہ اخلاقی طور پر مضبوط کردار کا مالک ہوگا تو یقیناً وہ انھیں اپنی زندگی کے ان پراثر مراحل کو کامیابی سے عبور کریں گا ورنہ اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے بچے سکول کے ماحول سے خوف زدہ ہو جاتے ہیں چاہئے وہ کھیل کا میدان ہویا کلاس روم ہو یا دوستوں یا ہم جماعتوں کے درمیان گپ شپ ہو۔ ایسے بچوں میں نفسیاتی بیماری جسے احساس کمتری کہتے ہیں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ایسے بچوں کو لمحہ بہ لمحہ حوصلہ افزائی کی ضرورت کے ساتھ استاتذہ و والدین کی توجہ کی ضرورت ہوتی ہیں۔ اَن پڑھ والدین ایسی کمزوریوں کو رفع کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور ایسے مسائل وقت کے ساتھ ساتھ مذید الجھ جاتے ہیں۔ پڑھائی میں عدم توجہ اور صحتمندنہ سرگرمیوں کا فقدان بچے کو سکول آنے سے متنفر کر دیتا ہےجو اس کے روشن مستقبل کو گرن لگا دیتا ہے جو زندگی کی آنے والی بھاری ذمہ داریاں کو بڑی سخت محنت و مشقت سے مزدوری کر کے سے نبھاتا ہے۔



ایسے پیچیدہ مسائل وقوع پزیر ہونے سے پہلے والدین کسی صورت غفلت بھرتنے کی بجائے بچوں کی تعلیم کےساتھ ساتھ تربیت سازی کے لئے کچھ وقت نکال لیں اور انہیں اخلاقیات کی کتب کے مطالعہ کا شوق دلایں ، بچوں میں بیٹھ کر اُن سے گفتکو و شنید سے اُن کے مسائل سنے اور اُن کے سدباب کے حل ڈھونڈے۔ اگر بچوں کی کردار سازی سے بچوں کے اندر خوداعتمادی پیدا کر دیں تو بچے اپنا مستقبل سنوارنے کے ساتھ ساتھ ملک کی تعمیر میں بھی اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں اور والدین کی زندگی کا بہترین لمحہ اور راحت و سکون بچوں کے تابناک مسقبل سے وابسطہ ہے۔



160