علم فلکیات اور اسلام

Posted on at


اولم یرالذین کفرو ان السموت والارض کانتا رتقا فضتقنھما وجعلنا من الماء کل شئی حی- "کیا وہ لوگ جنہوں نے (نبی کی بات ماننے سے انکار) کر دیا ہے- غور کر نہیں پاتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوے تھے- پھر ہم نے انہیں جدا کیا اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی-" القرآن



مظاہر کائنات کی تشریح و تفسیر کے سلسلے میں فلکیات کے نظریات میں جیسے جیسے ترقی ہو رہی ہے، وہ چودہ سو سال سے زیادہ پہلے قرآن کی بیان کردہ اس حقیقت کے قریب آتے ہیں ان کے پیش نظر قرآن کا یہ بیان کہ آسمان و زمین باہم ملے ہوے تھے- پھر ہم نے انہیں جدا کیا غور و فکر کے لائق ہے
موجودہ نظریہ یہ ہے کہ ستاروں کے مجموعے - مثلآ نظام شمسی جو سورج اور اس کے گرد گھومنے والے سیاروں پر مشتمل ہے، جن میں چاند اور سورج شامل ہیں، پہلے ایک تھا، پھر اس نے الگ الگ ہو کر مختلف کروں کی شکل اختیار کر لی- زمین بھی سورج کا ایک جز تھی پھر اس سے الگ ہو کر ٹھنڈی ہوئی - لیکن یہ بات فلکیات کا ایک نظریہ ہے جو آج مقبول ہے اور کل رد کیا جا سکتا ہے اور اس کی جگہ کوئی دوسرا نظریہ آسکتا ہے، جو کسی دوسرے مفروضے کی بناء پر مظاہر کائنات کی تفسیر زیادہ بہتر طور پر کرنے کے سبب نظریہ کا درجہ حاصل کر لے
ہم اصحاب عقیدہ قرانی اس بات کی کوشسش نہیں کرتے کہ قرآن کے یقینی نصوص کو کسی غیر یقینی نظریہ پر محمول کریں جو آج مقبول ہے اور کل رد کیا جا سکتا ہے- اس لئے ہم قرآن کریم کی تفسیر میں قرآن کے نصوص اور ان کے نظریات کے درمیان مطابقت دکھلانے کی کوشسش نہیں کرتے جو سائنٹفک کہلاتے ہیں- واضح رہے کہ ان نظریات کی نوعیت ان ثابت شدہ سائنٹفک حقائق سے مختلف ہے جو تجربے کے قابل ہیں- مثلآ دھاتوں کا گرمی پا کر پھیلنا، یا پانی کا بھاپ بننا اور پھر ٹھنڈک کی وجہ سے منجمند ہو جانا -- وغیرہ
دوسرے سائنٹفک حقائق جیسا کہ ہم اس میں پہلے بھی واضح کر چکے ہیں- ان حقائق کا مقام سائنٹفک نظریات سے مختلف ہے
قرآن نہ تو سائنٹفک نظریات کی کتاب ہے اور نہ اس لئے آیا ہے کہ تجرباتی طریقے سے سائنس مرتب کرے- وہ پوری زندگی کے لئے ایک نظام ہے- یہ نظام عقل کی تربیت کرتا ہے تاکہ وہ اپنے حدود کے اندر آزادانہ سرگرم عمل ہو سکے- وہ سماج کو ایسا مزاج عطا کرتا ہے کہ وہ عقل کو آزادانہ عمل کا پورا موقع دے- قرآن ایسی جزئیات اور تفصیلات سے تعرض نہیں کرتا جو خالص سائنٹفک ہوں- یہ امور عقل کی تربیت اور اس کے لئے آزادی عمل کے اتمام کے بعد عقل ہی کے لئے چھوڑ دئیے گئے ہیں
کبھی کبھی قرآن بعض کائناتی حقائق کی طرف اشارہ بھی کرتا ہے- مثلآ یہ حقیقت جس کا بیان اور آیت میں ہوا ہے "ان السموت والارض کانتا رتقا فضتقنا ھما" میں مذکورہ ہے،اس حقیقت پر ہمارے یقین کے لئے صرف یہ بات کافی ہے کہ قرآن میں یہ بیان ہوئی ہے- اگرچہ قرآن سے ہم کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ آسمانوں اور زمینوں کے جدا ہونے یا آسمان کے زمیں سے جدا ہونے کا عمل کس طرح انجام پایا- ہم فلکیات کے ان نظریات کو قبول کرتے ہیں جو قرآن کی بیان کردہ اس مجمل حقیقت کے خلاف نہ جاتے ہوں- لیکن ہم قرآن کے بیان کو فلکیات کے کسی نظریۓ کے تابع نہیں بناتے نہ انسان کے نظریات سے قرآن کی تصدیق چاہتے ہیں



کیونکہ قرآن تو خود ایک یقینی حقیقت ہے- زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے فلکیات کے موجودہ نظریات اس نص قرانی کے اجمالی مفہوم سے نہیں ٹکراتے اگرچہ یہ ان نظریات سے صدیوں پہلے آیا تھا
آیت کا دوسرا حصہ " وجعلنا من الماء کل شئی حی" بھی ایک اہم حقیقت بیان کرتا ہے. سائنسدان اس حقیقت کی دریافت اور اثبات کو بڑی اہمیت دیتے ہیں- اس دریافت کا سہرا وہ ڈارون کے سر باندھتے ہیں یہ حقیقت ہے کہ زندگی سب سے پہلے پانی سے پروان چڑھی
بلاشبہ اس حقیقت کا ادراک چونکا دینے والا ہے- مگر یہ بات کہ یہ قرآن کریم میں مذکور ہے، نہ ہمارے لئے باعث تعجب ہے نہ قرآن کی صداقت کے بارے میں ہمارے یقین کے اندر کوئی اضافہ کرتی ہے- کیونکہ قرآن کے تمام بیانات کی کامل صداقت پر ہمارا اعتقاد ہمارے اس ایمان سے ابھرتا ہے کہ وو الله کی طرف سے ہے- سائنٹفک اکتشافات یا نظریات سے ان بیانات کی مطابقت اس اعتقاد کا منبع نہیں ہے- یہاں ہم زیادہ سے زیادہ جو بات کہ سکتے ہیں وہ یہ ہے ڈارون اور اس کے رفقاء کا نظریہ نشووارتقا اس مخصوص نکتہ کی حد تک نص قرانی کے مفہوم سے نہیں ٹکراتا



About the author

Maani-Annex

I am an E-gamer , i play Counter Strike Global Offence and many other online and lan games and also can write quality blogs please subscribe me and share my work.

Subscribe 0
160