سیا سی شغل نا مہ

Posted on at


 یہ 2007 کی بات ہے۔  شہیدوں کی پارٹی میں ایک اور شہید کا اضافہ ہوا۔ بینطیر  بھٹو  اس جہاں سے کوچ کر گئی۔ کسی نے کہا کہ ملک کو اور ملکی سیاست کو ناقابل ِ تلافی نقصان ہوا ہے اور کسی نے کہا خس کم جہاں پاک۔


ڈارون بولا بندر ہوں میں، منصور بولا خدا ہوں میں


یہ دیکھ کر ہم بولے  فکرِ ہر کس بقدرِ ہمّتِ اوست


 خوب احتجاج ہوا۔ پر تشدد واقعات ہوئے۔ توڑ پھوڑ ہوئی۔  ہم نے بھی موقع سے خوب فائدہ اٹھایا۔ سڑک کے درمیان ایک جنگلہ لگا تھا۔ سڑک کراس کرنے کے لیے پورا چکر لگانا پڑتا تھا۔ چونکہ ہمیں بی بی کی شہادت کا بہت افسوس تھا۔ اس لیے ہم نے بھی اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا اور جنگلہ توڑ دیا۔ کافی فائدہ ہو گیا ۔ جب بھی اس ٹوٹے جنگلے سے گزرتے ہیں جو کہ اب کینسر کی بیماری کی طر ح بڑھتا ہی جا رہا ہےتو  بی بی کی بہت یا د آتی ہے۔اور بلاول کی مسکینی کا احساس بھی ہوتا ہے۔


        بی بی تو چلی گئی پر جاتے جاتے اپنی پارٹی سے وفا کر گئی۔ پارٹی الیکشن جیت گئی۔ اس پارٹی نےپینسٹھ سالہ تاریخ میں پہلی دفعہ اپنی پانچ  سالہ مدت پوری کی۔ اور انہیں پانچ سال خوب موقع ملا۔ کس  چیز کا موقع۔۔۔۔۔ بھئی  خدمت کا اور کس کا، آپ کیا سمجھ رہے ہیں۔۔۔۔۔؟؟



        اس دور ِ حکومت میں کئی شاہکار سامنے آئے۔ مگر  "ڈگری ،ڈگری ہوتی ہےاصلی ہو یا جعلی" نے بہت شہرت حا صل کی ۔  اس چھوٹے مگر بہت ہی با اثر فقرے نے سینکڑوں لوگوں کو احساس کمتری سے نکال دیا۔ وہ یہ احسان کبھی نہیں بھولیں گے۔     


                     کہتے ہیں کہ کرکٹ میں ٹائمنگ  بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اور جس نے  20 سال میدان میں گزارے ہوں وہ ٹا ئمنگ کی اہمیت بھلا کہاں بھول سکتا ہے۔  اس لیے کپتان خان مکمل ٹائمنگ کیساتھ  اپنے یارکر سے وکٹیں گرانے آئے۔ 30 اکتوبر 2011 کو لاہور سے اپنی اننگز کا آغاز کیا۔ کھیل  تو  کافی عرصے سے رہے تھے پر کوئی بڑی اننگز نہیں کھیل پائے تھے۔ خان کے یارکرز کسی حد تک چل گئے۔ کو انسیڈینس یہ ہوا کہ اسی وقت پنجاب حکومت نے لیپ ٹاپ  بانٹ دیے۔ لوگ تو کہتے ہیں  کہ یہ لیپ ٹاپ  سونامی  میں بہہ جانے کے خوف کی وجہ سے بانٹے گئے۔۔۔۔۔۔۔ مگر چھوڑیے جناب۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگ تو کچھ بھی کہہ دیتےہیں۔



 پاکستان کو اللہ نے  مختلف  موسموں سے نوازا ہے۔ سبھی موسموں کی افادیت اور خوبصورتی اپنی جگہ۔مگر مجھے سب سے زیادہ "الیکشن کا موسم " پسند ہے ۔  کیا کہنے اس موسم کے۔ اس موسم میں قدرتی موسم بھی اپنا رنگ و روپ کھو دیتا ہے۔ اگر گرمیاں ہوں تو گرمی نہیں لگتی اور اگر سر دیاں ہوں تو سردی کا احساس نہیں ہوتا۔ ہر طرف "سبز باغ " نظر آتے ہیں، رگوں میں سیروں خون بڑھ جاتا ہے۔ امیدوں کے چراغ جلنے لگ جاتے ہیں۔ فضا سہانی سہانی لگتی ہے اور سب اپنے اپنے۔۔۔



        ووٹرز کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ تمام جماعتیں کوشش کر تی ہیں کہ  ایسے خواب دکھائیں جو انہوں نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھے ہوں۔ 2013 کے الیکشن کی مہم میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔کچھ وعدے  تو  ایسے  تھے جنہوں نے کئی لوگوں کو انگلیاں دانتوں میں دبانے پر مجبور کر دیا ۔  کچھ نے ڈرون پر گہری "نظر " ر کھی تو کچھ لوگوں کو شاید اپنا  نام پسند نہیں تھا اور وہ بہانے سے اپنا نام تبدیل کرانا چاہتے تھے۔ کچھ تبدیلی کی گود میں بیٹھنا چاہتے تھے اور کچھ  روشنی کی رفتار سے سفر کے دعویدار بنے۔ اور "روٹی ، کپڑا اور مکان" کی ضرورت تو ازل سے رہی ہے۔۔۔۔۔۔



        ویسے ذاتی طور پر "موسمِ  انتخابات " میرا پسندیدہ موسم ہے۔ جلسے جلوس، ریلیاں،  کارنر میٹینگز ، یہ سب بحرانوں میں پھنسی ہوئی قوم کے لیے باعث تفریح ہے۔ بغیر کسی چارجز کے  میوزیک کنسرٹ بھی انجوائے کر لیا اور  "چغلی میٹینگ " بھی اٹینڈ کر لی۔ اور دوستوں سے ملاقات بھی کر لی۔


        الیکشن میں کیا ہو ا۔   شیر دھاڑا، سائیکل پنکچر ہوئی، پتنگ "بو کاٹا" کے  شور میں کٹ کر کر گئی ، تیر نشانے پر نہ لگااور سونامی دھاندلی کے گہرے گڑھے میں جا گری۔



 


 


اب باری تھی حکمرانوں کی اپنے وعدے پورے کر نے کی۔ مگر وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔ موسم ِ انتخابات میں لگائے  گئے بیجوں  سے کوئی پودا نہ نکل سکا۔ ایک سال گزر گیا ، نہ ڈرون گرانہ  علی بابا اور چالیس چوروں کو ہتھکڑی لگی اور نہ ہی کوئی سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔


 


 


        سیاسی منظر نامہ پر سکوت طاری تھا۔ بڑی بے رونقی سی تھی۔  سونامی خان نے آنکھ  کھولی، حالات کا جائزہ لیا اور سوچا کہ عوام بہت بور ہو رہی ہے ان کی تفریح  کا  سامان پیدا کیا جائے۔ لہذا انہوں نے  پینتیس پنکچر شدہ دھاندلی کا ڈھول اٹھایا اور پیٹنا شروع کردیا۔ گھر میں تو بجلی آتی ہی نہیں  اس لیے عوام نے سوچا کیوں نہ جلسے میں جا کر میوزک بھی انجوائے کر لیتے ہیں اور آؤٹنگ بھی ہو جائے گی۔ یہی وجہ تھی کہ انکی سونامی کی لہریں ذرا بپھری ہوئی محسوس ہونے لگیں۔


ان حالات میں  طاہر القادری صاحب  کے ذکر کے بغیر بات ادھوری ہے۔ حلقہِ اہل  ِذوق میں "مولانا شغلی " کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ مگر خیر ہمارے لیے تو محترم اور مکرم  ہیں۔ آپ کو بھی وطن کی محبت کشاں کشاں ملک میں کھینچ لائی۔ مگر ان کی آمد کیساتھ  سیاسی منظر نامہ پر کچھ دھند سی چھا گئی ہے۔ اور  محکمہ سیاسیات  کی پیشن گوئی  کے مطابق یہ دھند اگلے تین سے چار ہفتے مزید جاری رہے گی۔ اس کے بعد سونامی کا رخ اسلام آباد کی جانب ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ انقلاب کی چند  بوندیں  بھی اس میں شامل ہو جائیں۔ اور موسم میں کچھ "تبدیلی"  کا امکان ہے۔


 


       


        تبدیلی سے یاد آیا کہ  آجکل ہمارے رویوں میں بھی بہت تبدیلی آ چکی ہے۔ ہم اس قدر پر اعتماد ہو چکے ہیں کہ کوئی ہمیں  لاجواب نہیں کر سکتا۔  ہمارے پاس ہر سوال ، ہر بات ، ہر طعنہ اور ہر الزام کا ایک نہایت عمدہ ، بہترین اور جامع جواب موجود ہے


مثلاََ 


 


 


اگر امی مجھے  کہیں " بیٹا بازار میں دیر کیوں لگائی؟"


اگر میرا دوست مجھے کہے " اؤےتم آج پھر نہا کر نہیں آئے؟"


اگر میری بہن کہے " تمہارے بال اتنے بڑے ہوئے ہیں تم نے کٹنگ کیوں نہیں کرائی"


اگر استاد کہے "تم نے آج پھر ہوم ورک نہیں کیا؟"


یا میری گرل فرینڈ کہے  کہ "تم نے مجھے برتھ ڈے وش کیوں نہیں کی؟"


تو میرے پاس ان سب سوالوں کا ایک نہایت عمدہ، بہترین اور جامع جواب ہوتا ہےکہ



"تو عمران خان نے کے پی کے میں کیا کر لیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟ "



عمیر علی


سابقہ بلاگز پڑھنے کیلئے کلک کیجیئے۔


 



About the author

160