موٹر سائیکل رکشہ حصہ دوئم
اس سے لوگوں کو ایک فائدہ یہ ہے کہ لوگ کم پیسوں میں اپنی مقررہ جگہ پر پہنچ جاتے ہیں لیکن ان کے ساتھ بیٹھنے سے کوئی گارنٹی نہیں کہ مقررہ جگہ پر پہنچیں گے یا ہسپتال۔
ایک اور یہ بات کہ ان کی آواز اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ عام لوگ اس کی آواز سے بہت پریشان ہوتے ہیں اور اگر کوئی دل کا یا بلیڈپریشر کا مویض ہو تو چاہے اس کی آواز سے اس کو ہاٹ اٹیک یا دماغ کہ نس ہی پھٹ جائے اور اوپر سے سونے پر سہاگا کہ انہوں نے میوزک اتنی اونچی آواز میں کیا ہوتا ہے کہ لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دراصل مسلہ یہ ہے کہ ان میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو کوچوان تھے یعنی کچھ عرصہ پہلے تانگہ چلاتے تھے اب انہوں نے موٹر سائیکل رکشے خرید لیے ہیں اور ان کو موٹر سائیکل اور تانگے میں کوئی فرق ہی میں لگتا۔
اس کے برعکس سی۔این۔جی رکشے پروپر ڈائزین ہیں یعنی منظور شدہ ڈائزین رکشے ہیں ان کہ آواز بھی کم ہے اور جھٹکے بھی زیادہ نہیں لگتے اور کبھی ایسا بھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ ڈرائیور ہوا میں لٹک رہا ہو یا اس کی وجہ سے لوگوں کو اتنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے جتنا موٹر سائیکل رکشہ پر کرنا پڑتا ہے۔
اور موٹر سائیکل رکشہ ڈرائیور کو بھی یہ چائیے کہ رکشہ چلاتے وقت یہ ہی سوچے کہ وہ رکشہ چلا رہا ہے نا کہ جہاز اور ہمیشہ رکشہ کی رفتار آہستہ رکھے اس سے اس کو بھی پریشانی نہیں اٹھانی پڑے گی اور لوگوں کو بھی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
۔