سائنسی تحقیق عصر حاضر کا تقاضا

Posted on at


سائنسی تحقیق عصر حاضر کا تقاضا


اکیسویں صدی کے آغاز میں وہ کرشماتی سائنسی ایجادات جن کا ذکر ہم بیسویں صدی میں سنتے آئے ہیں کو بلاشبہ عملی جامہ پنہایا گیا۔ جیسے ٹیلی فون کی ایجاد کے بعد اکثر سنے میں آتا تھا کہ عنقریب ایسے ٹیلیفون انسانی معاشرے میں آ جائے گئے جہاں براہ راست آواز کے ساتھ انسانی تصویر بھی آئے گی،جس نے اکیسویں صدی میں آ کر عملی روپ دھار لیا۔  سائنس ایک عقلی علم ہے اور یہ روحانی علم کا تضاد ہے۔  عقلی علم کا جھکاؤ مادہ پرستی کی طرف ہے جو حقیقی اسلامی روح کے خلاف ہے۔ اس سائنسی دور میں حیرت انگیز ایجادات کا جب ذکر کسی عمر رسیدہ بزرگ سے کر دیا جائے تو وہ اسے زمانے کی انتہا کہتا ہے اور آخیر زمانہ سے تشبیع دیتا ہے لیکن لگتا یوں ہے جیسے جدید زمانے اور تہذیب کی ابھی تو ابتداء ہوئی ہے۔ ابھی تو انسان نے ہوا، پانی، زمین اور آگ کو تسخیر کرنے کا ہنر سیکھا ہے  سمندروں کی گہرائیوں سے آسمانوں کی بلندیوں تک اور ہزاروں میٹر نیچھے زمین سے معدنی وسائل ، غصے جاؤجلال و عظمت سے بہتے دریاؤں کو روک کر پن بجلی کا حصول سائنسی ایجادات کی بدولت ہی ممکن ہوا۔  سائنسی ایجادات نے انسان کو دنیا کا اکلوتا وارث بنا دیا ہے جو زوربازو  کا کمال کم اور عقل کا زیادہ لگتا ہے۔



 


کچھ مذہب سے قریب لوگ موجودہ دور کو دجالی دور سے تشبیع دیتے ہیں۔  سنے میں آتا ہے دجال کے پاس کرامات ہو گی ، دنیا بھر میں بادلوں کا کنٹرول اس کے ہاتھ میں ہوگا اور دنیا کے مختلف حصوں میں اس کی مرضی سے بارش ہو گی دجالی دور کی دوسری اہم خصوصیت بینکوں کا جدید الیکڑانک نظام ہو جن کا نظم و نسق دنیا کے واحد مرکز کے پاس ہو گا۔



عصر حاضر کی غیر معمولی ایجادات پر نظر ڈالی جائے تو مغربی دنیا اپنے علوم و فنون کی بدولت جدید ٹیکنالونی کو بروئے کار لارہی ہے۔ ذرائع مواصلات و ابلاغ کی پھرتیاں ہر طرف جلوہ گر ہیں۔  لیکن پسماندہ ممالک اور خصوصاً پاکستان  میں مذہبی لوگ ابھی تک ان سب سائنسی عجوبوں کو عارضی ہی تصورکرتے ہیں ، لیکن عقائد اور ایمان کی روشنی میں حقیقت آفشاں تو ہے کہ ایک ایمان افروز گروہ دجالی قوتوں کے ساتھ نبرد آزما رہے گا جس  لڑائی کا خاتمہ  آخر عیسیٰ علیہ السلام کریں گے۔ اللہ جانے وہ ایمان افروز گروہ کون سا ہو گا فی زمانہ تو مسلمان کفر کے ساتھ مقابلے کے برعکس اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا خون ناحق بہا رہے ہیں۔



قدامت پرست مسلمان جدید و عقلی علوم کو مذہب کے مخالف سمجھتے ہیں، یہ دانش مندی نہیں اور نہ دور حاضر کے تقاضے۔ اگر ایسا ہے تو مسلمان مسجدوں کے اندر غیر مسلم اقوام کی ساختہ ایجادات جس میں لوئڈ سپیکر اور مائیک کا استعمال ہے کیوں کرتے ہیں یا پھر غیر مسلموں کا ایجاد شدہ اسلحہ برسرپیکار محاذوں پر کیوں استعمال کرتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے اسلام کی عالمگیر خصوصیت قناعت پسندی کی تعلیم بھی ہے لیکن قناعت پسندی کی اپناہیت اس وقت ہوتی ہے جب ملک میں عدلانہ نظام حکومت ہو اور لوگ زیور تعلیم سے بھی پیراستہ ہوں لیکن کمزور معشیت کے سبب رہن سہن کے فضول لوازمات سے بچنے کے لئے قناعت پسندی کے اختیارکے اصول پر عمل پیرا ہولیکن ہمارے ملک میں خصوصاً اور مسلم دنیا میں عموماً گنگا تو الٹی بہہ رہی ہے۔ دنیاوی مال و دولت ہونے کے باوجود وسائل کا استعمال جدید سائنسی تحقیق پر استعمال نہیں ہو رہا۔ جو اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتا بوجہ جس کے اسلامی دنیا دیگر اقوام عالم سے ہر شعبہ زندگی کے لحاظ سے پسماندہ ہے۔



اسلام کی بنیاد تو لفظ اقراء سے رکھی گئی ہے  اور آسمانی کتاب قرآن مجید کا ہر لفظ سائنسی ترازو میں ٹھیک ٹھیک ثابت ہو رہا ہے۔ علم و اہل علم کو اعلیٰ درجات سے نوازہ گیا ہے۔ اسلام کی روشن خیال تعلیمات کا تقاضا ہے اسلامی دنیا اپنے قمیتی وسائل کو جدید تعلیمی درسگاؤں، جدید کتب خانوں کے قیام پر خرچ کرئے اور آزمودہ جدید سائنسی ایجادات کی ٹیکنالوجی کے حصول کی کوششیں کریں، تحقیقاتی اداریں ہی ملک کی سلامتی اور بقا کے امین ہیں نہ کہ پر آسائش محلات اور مقبرے اور چادر چڑہاوے۔ 



160