ادب اور اخلاق (٤)

Posted on at


noاخلاق کی اصلاح بہت نیک کام ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر نیک کام ادب ہی ہو-مذہبی موضوعات پر لکھنا آخرت کو سدھار سکتا ہے لیکن ہم اسے تخلیقی ادب میں نہیں گنیں گے-جمالیاتی شعور اور اصلاح اخلاق کے بیج میں ادب جمالیاتی شعور کو ترجیح دے گا-ساتھ ہی اخلاق شعور بھی پیدا ہو جاے تو کیا کہنا ،نہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں-گویا ادب میں اخلاق کا لا شعور نظام کار فرما ہے-

ادب اور اخلاق کا رشتہ تلاش کرتے وقت ہم ادبی تخلیقات کو کئی قسموں میں بانٹ سکتے ہیں:

وہ تخلیقات جن میں ادبی حسن بھرپور ہے اور جو اخلاق کی اصلاح بھی کرتی ہیں-

وہ ادبی تخلیقات جن میں ادبیت بہت کم ہے لیکن جن سے اخلاق کی اصلاح ہو سکتی ہے-

وہ تخلیقات جن میں ادبی حسن موجود ہے لیکن مخرب اخلاق ہیں-

وہ تخلیقات جن میں ادبیت براءے نام ہے اور جو مخرب اخلاق بھی ہیں-

 

وہ تخلیقات جو ادبی حسن سے بھرپور ہیں لیکن اخلاق پر کوئی نمایاں اثر نہیں ڈالتیں یعنی نہ مصلح اخلاق ہیں مخرب اخلاق-

ادب،اخلاق اور جمالیات:

وہ ادبی تخلیقات جن میں ادبیت حسن بھرپور ہے اور اخلاق کی اصلاح بھی کرتی ہیں-مثلا محمّد حسین آزاد کا "نیرنگ خیال " حالی کی مناجات بیوہ" ،پریم چند کا "گئودان "،قاضی عبدالغفار کی "لیلیٰ کے خطوط" –ان کو پڑھ کر ہم کسی نہ کسی برائی سے متنفر ہو جاتے ہیں.کسی قدر رفعت ضرور محسوس کرتے ہیں-ظاہر ہے کہ ادب کی یہ قسم ہر معیار سے قابل قدر ہے- وہ تخلیقات جن میں اخلاقی شعور ادبیت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے –مثلا نظیر احمد کے ناولوں میں موعضت والے حصے یا حالی کی "مجالس النسا " یا حالی ہی کی اخلاقی شاعری –مثلا ان کی ایک مختصر نظم ملائضہ ہو :

گو آدمی کا حافظہ کیا ہی ہو قوی

پر بھول چوک ہے بشریت کا تقاضہ

ہوتا ہے اس میں کار نمایاں کوئی اگر

کرتا ہے بار بار کرتا ہے اس کو برملا

پر اتفاق سے نہیں رہتا یہ اس کو یاد

یاروں سے میں بیاں ابھی کر چکا ہوں کیا

ان تخلیقات کی ادبی اھمیت کتنی ہے اندازہ لگایا جا سکتا ہے- تیسری قسم ان تخلیقات کی ہے کہ جن میں ادبی حسن مسلم ہے لیکن جو اخلاق کو پستی کی طرف لے جاتی ہیں یہ لے کے جا سکتی ہیں –مثلا داستانوں میں سراپا اور جنسی بیاں کے سلسلے میں عریاں مطالب ،شوق لکھنوی کی مثنوی "فریب عشق" اور "بہار عشق " حسن عسکری کا افسانہ "پھسلن" وغیرہ-ہم ان تخلیقات کو ان کے ادبی پہلو کے باعث قابل اعتنا سمجھتے ہیں لیکن ان کی اخلاقی کیفیت کو کس طرح سراہیں –مومن مثنوی "حنین مغموم " میں ایک نظریہ پیش کرتے ہیں کہ منکوحہ عورت پر کوئی غیر مرد صدق دل سے عاشق ہو جاے تو عورت کا فرض ہے کہ وہ خود کو اس عاشق صادق کے حوالے کر دے-اس مثنوی کے گمراہ کن اشعار کو کوئی بلند مرتبہ نہیں دیا جا سکتا-

چوتھی قسم ان تخلیقات کی ہیں جن میں ادب حسن براے نام ہے اور جو پست اخلاقی کی پوٹ بھی ہے –مثلا مرزا شوق کی مثنویاں،یہ چیزیں ہر اعتبار سے پست ہیں-انہیں ادب میں کوئی سنجیدہ مقام نہیں دیا جا سکتا- پانچویں قسم ان تخلیقات کی ہے جی ادبی حسن سے بھرپور ہے لیکن اخلاق سے کوئی تعرض نہیں کرتیں –مثلا مثنوی :میر حسن "، ”گلزار نسیم" اور "فسانہ عجائب " وغیرہ پڑھنے کے بعد اخلاق پر کوئی قابل ذکر دیر پا اثر نی ہوتا-

 



About the author

aroosha

i am born to be real,not to be perfect...

Subscribe 0
160