پورا عرب سویا ہوا تھا اور قریش کے سردارحضرت عبد المطلب بھی سو تو رہے تھے لیکن ایک سچا خواب بھی دیکھ رہے تھے انہوں نے دیکھا کے سامنے ایک درخت کھڑا ہے جس کی چوٹی فلک چھو رہی ہے اور ایک طرف اسکی شاخیں مشرق اور دوسری طرف مغرب کو مل رہی ہیں اور اس درخت میں سے ایک نور بلند ہو رہا ہے جس کو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا اس نور کی نورانیت کا یہ حال تھا کے چاند کی چاندنی بھی کچھ نہیں تھی اسکے سامنے بلکے اس سے ٧٠ گنا زیادہ نور تھا اور عرب و عجم اسکے سامنے پڑے ہوۓ ہیں اور وو درخت آہستہ آہستہ بلند اور روشن ہوتا جاتا ہے پھر ایک پل کے لیے آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے
پھر اگلے لمحے سامنے آ جاتا ہے پھر حضرت عبد المطلب بیان کرتے ہیں کے ایک قریش کا گروہ اس درخت کی شاخوں سے لٹکا ہوا ہ اور دوسرا قریش کا گروہ اسے کاٹنے کے لئے آ گے بڑھ رہا ہے جیسے ہی وہ گروہ قریب آیا ایک نورانی اور خوبصورت نوجوان نے اس گروہ کو پکڑ لیا ایسا خوبصورت نوجوان پہلے نہیں دیکھا تھا اور اسکے جسم سے بہت پیاری خوشبو آ رہی تھی اور نوجوان اس گروہ کو مار رہا تھا اور انکی آنکھیں نکال رہا تھا حضرت عبد المطلب فرماتے ہیں کے میں نے اس درخت درخت کی طرف ہاتھ بڑھایا کے کچھ حاصل کر لوں پر ناکام رہا
تب میں نے کسی سے پوچھا اس درخت میں کس کا حصّہ ہے تو بتایا گیا جو اسکو تھامے ہوۓ ہیں یہ وو لوگ ہیں جنہوں نے تم سے پہلے اس درخت کو تھام لیا اسکے بعد میری آنکھ کھل گئی اسکے بعد تعبیر کے لئے قریش کی ایک بزرگ خاتون کے پاس گئے اس خاتوں نے کہا اگر اپکا خواب سچا ہے تو آپکے صلب سے ایک ایسا بچا پیدا ہوگا جس کی مشرق سے مغرب تک حکمرانی ہو گی اور لوگ اسکی فرمانبرداری کریں گے اور وہ شخصیت ہمارے پیارے نبی حضرت محمّد ہیں