عرب دنیا کی سپر پاور

Posted on at


 


عرب دنیا کی سپر پاور


بدنام زمانہ ریاست اسرائیلی ملک کا تصور ٹھیوڈز ہرلزنے 1896 میں اپنی کتاب دی جیوش اسٹیٹ میں دیا جس کے مطابق یہودی قوم کے لئے یورپ سے  الگ ایک  مضبوط ریاست قائم کرکے اسے معاشی طور پر سب قوموں پر حاوی کر دیا جائے ، ٹھیوڈز ہرلز آسٹریا کا شہری تھا جو اپنا تصور یہودیوں میں چھوڑ کر 1904 کو دنیا سے رخصت ہو گیا۔



 دوسری جنگ عظیم تک مشرق وسطیٰ خلافت عثمانیہ کے زیر تسلط تھا جب ترکی کو دوسری جنگ عظیم میں شکست ہوئی تو اس علاقے پر برطانیہ نے قبضہ کر لیا ، برطانیہ جس کا شمار یہودی قوم کے ہمدردوں میں صف اول کے ممالک میں کیا جاتا ہے۔  اس کی ایک وجہ یہ بھی نظر  آتی ہے دوسری جنگ عظیم  میں برطانیہ کا سب سے بڑا جنگی حریف جرمنی تھا جس پر ہٹلر جیسے سخت گیر انسان کا کنٹرول تھا۔ ہٹلر کے نزدیک جرمن قوم کا خون اور نسل دنیا میں سب سے اعلیٰ ہے اور اس دنیا پر حکمرانی کا حق جرمن قوم کو ہے۔ اس کے خیال میں دنیا پر جرمن قوم کی حکمرانی کے خواب کی تعبیر میں سب سے بڑی رکاوٹ یہودی قوم ہے  ، 1942 تک جرمنی نے دنیا کے نصف حصے کو زہر نگین کر دیا تھا۔ یہودی قوم کی بیسویں صدی کی سب سے بڑی نسل کشی کی گئی اور 60 لاکھ یہودیوں کو جرمنی کے اندر اور جرمن کے زہر کنٹرول علاقوں کے عقوبت خانوں میں قتل کیا گیا۔ جسے ہالوکاسٹ کہا جاتا ہے1946  میں جرمنی کی دوسری جنگ عظیم میں شکست و ریخ کے بعد دوبارہ نئے سرے سے یہودی قوم کو آباد کرنے اور اس سے اظہار ہمدردی جتلانے کے لئے یہودی ریاست کے قیام کے مطالبے پر زور دیا گیا اور یہ مطالبہ مفتوح قوموں کے سامنے پیش کیا گیا اور دریائے جارڈن  کے اس پار فلسطینی ریاست کے اندر1948 کو اسرائیلی ریاست کی داغ بیل ڈال دی گئی۔



فلسطینی مسلمان جو صدیوں سے اس علاقے پر آباد اور قابض تھے زور زبردستی اور فوجی قوت کو استعمال کر کے اپنی ہی سرزمین سے بے دخل کر دیئے گے اسرائیل نے اپنے آقاؤں امریکہ اور برطانیہ کی ایما پر


پڑوسی ممالک کی سرحدوں کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ سے تا حال شروع کر رکھا   ہے ، اسرائیلی ملک  آئے دن نہاتے مظلوم فلسطینوں کو اپنی جارحیت کا نشانہ تو بناتا ہی ہے لیکن اب اس کی بار وہ اپنی ملکی سرحدوں کی مزید توسیع دینے کی سابقہ راویت دہرانا چاہتا ہے ،



خلیجی ممالک خصوصاً عراق جو ملک اسرائیل کے لئے ماضی میں خطرے کی گھنٹی تھا سامراجی قوت امریکہ نے جوہری ہتھاروں کے بہانے عراق پر فوجی قوت کا استعمال کیا اور ملک کو تباہ کر کے اُسی حالت جنگ کی صورت حال  میں چھوڑ کرراہ فرار اختیار کی ، ملک شام کو اندرونی خانہ جنگوں نے تباہ اور کھوکھلا کر دیا ہے اور دیگر خلیجی ممالک اپنی اپنی ریاستوں کو بچانے کے لئے تگ و دو کر رہی ہیں۔ مصر درپردہ موجودہ اسرائیلی جارحیت میں اسرائیل کی مدد کر رہا اور دیگر پڑوسی ممالک فلسطینوں کے خون ناحق پر بالکل خاموش ہیں یہ خلیجی ممالک ڈرے سمے ہوئے ہیں اندرون ملک سے عوام کی بغاوت اور سول خانہ جنگی اور باہر سے اسرائیلی جارحیت کا ڈر، سروں پر تلوار لٹکائے ہوئے ہے۔ یہودی قوم دنیا کی آبادی کا صرف دو فیصد ہے اور دنیا کی معشیت میں اس کا حصہ پچاس فیصد ہے ، دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقتیں کے بڑی اقتصادی اور امیر ترین شخصیات یہودی ہیں جو برطانیہ اور امریکہ  کو کنٹرول کر رہی  ہیں۔ جوہری ہتھیاروں سے لیس ہے مضبوط معاشی اور عسکری طاقت رکھنے والا ملک کے ڈر کی وجہ سے کوئی ملک دباؤ نہیں ڈال سکتا ہے نہ میڈیا میں اعلیٰ سطح پر کوئی بیان دے سکتا ہے تو پھر عرب ممالک جو کئی عشروں سے اپنے عوام کا استحصال کرتے چلے آرہے ہیں جن میں سیاسی شعور کا فقدان ہے قومی معشیت کا سہرا صرف تیل ہے جو غیر ملکی کمپنیوں کے زیر کنٹرول ہے۔  دیگر کسی شعبے میں کوئی خاطر خواہ ترقی نہیں کی گئی نہ عسکری طاقت ، نہ ٹیکنالوجی کا حصول نہ بہترین درسگائیں۔ اسرائیل جیسے مضبوط ملک کے لئے جسے دنیا کی اکلولتی سپر پاور امریکہ کی بھی آشیر بار حاصل ہو ایسے کمزورممالک پر بغیر کسی بیرونی دباؤ میں آنے کے پڑوسی ملکوں پر فوج کشی کرنا مشکل نہیں۔ 



لیبیا جو کرنل معمرالقذافی کے دور میں عرب خطہ کے اتحاد اور یکجہتی کا بڑا حامی رہا ہے اور سامراجی قوت امریکہ کے اکثر نشانے پر رہا ہے جو پہلے ہی سے سول خانہ جنگی سے متاثر ہونے کی وجہ سے اسرائیل کے خلاف موثر جنگی صلاحیت کھو چکا ہے۔  اور عظیم تر صہونی ریاست کے قیام میں بڑی اکائیاں گر چکی ہے۔ اس میں ایک مستقبل بعید کی  بڑی رکاوٹ ایران کا غزہ میں کردار ہو سکتا ہے لیکن امریکہ نے ایران پر اقتصادی پابندیاں لگا کر اس کی معشیت کو گھن لگا دیا ہے جو اسے اندر سے آہستہ آہستہ کھا رہا ہے اور کھوکھلا کر رہا ہے ابھی تک ایرانی قوم اندر سے یک جان اور متحد ہے جمہوری طریقوں سے عوامی فیصلوں اور فیصلوں میں شراکت کا احترام ہے جو بیرونی اور اندورنی سازشوں میں رکاوٹ ہے قانون کی حکمرانی اور عوام کے ساتھ عدلانہ سلوک اور قومی وسائل کی مساوی تقسیم ، ابھی تک مسلم دنیا میں واحدمنظم ملک جو اسرائیل کو ایک آنکھ نہیں بہاتا۔



یہ حقیقت ہے عظیم تر اسرائیلی ملک بنانے  کے پیچے عرب ملکوں میں مغربی دنیا کی طرف سے بادشاہت کے ںظام کی حمایت بھی ہے جس کا اصل مقصد خلیجی ریاستوں میں عوام میں سیاسی اور علمی  شعور کی ترقی و نشونما میں جمود طاری کرنا تھا جو آنے والے وقت میں اسرائیلی ریاست کے عرب ممالک کے اوپر ممکنہ تسلط کو متاثر کرسکتے ہیں اور باشعور اور باصلاحیت عوام  عرب ملکوں پر اسرائیل جاریت کے دوران فوج کے شانہ باشانہ کئی  کھڑی نہ ہو جائے، عرب ممالک میں بادشاہت کے نظام سےعوام کو علم و شعور سے دور رکھنا ایک منظم سازش ہے جو عظیم تراسرائیلی ایجنٹے کی تکمیل کو مربوط شکل دینا ہے۔  امریکہ دنیا میں جمہوریت اور جمہوری قدروں کا سب سے بڑا پاسدار اور ٹھکیدار بنتا ہے لیکن عرب ملکوں میں بادشاہی نظام کا حامی ہے کسی بھی ملک کی طاقت اس کی عوام ہوتی ہے نہ کہ ایک مخصوص مراعات یافتہ حکمران طبقہ یا حکمران اشرافیہ۔ عوام جتنی معاشی سماجی طور پر مضبوط ہو گی ملک بھی اتنا ہی مضبوط ہوگا۔ بنیادی سماجی اکائیاں صحت تعلیم ، انصاف اور آزادی اظہارئے رائے کا احترام ہے۔  اگر آج بھی مغلوب قومیں سامراجی قوموں سے جان کی امان چاہتی ہیں تو ان بنیادی اکائیوں پر عمل درآمد سے ممکن ہو سکتا ہے۔  ورنہ خارجی اور داخلی خوف و ڈر کے سائے  تلے ہی وقت بسر ہوگا اور نہاتے عوام پتھروں سے ٹینکوں اور جنگی جہازوں کا مقابلہ کر رہے ہو گے اور دنیا کے سامنے اپنی مظلومیت کی تصویر پیش کر رہے ہو گئے۔


=========================================================



160