اسلام میں شادی کا تصور

Posted on at



دوسرے مذھب کی طرح اسلام میں شادی مرد اور عورت جے درمیان ایک پاکیزہ بندھن کا نام ہے- جس میں وہ زندگی بھر کے لئے ایک دوسرے کے ساتھی بن جاتے ہیں- مرد یا خاوند کو تحفظ اور مالی تعاون کی ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے جبکہ بیوی گھر اور گھریلو معاملات کی دیکھ بھال کرتی ہے- شادی انسانی نل کے تسلسل کا ایک قانونی طریقہ کار ہے چاہے کوئی مذھب ہو پوری دنیا میں شادی کا مطلب عموما یہی لیا جاتا ہے


اسلم میں عورت اور مرد کو شادی کے بندھن میں منسلک ہونے کا ایک منفرد طریقہ کار ہے جو کہ دوسرے مذاھب سے یکساں مختلف ہے اور اسلم کو دنیا کے کیگر مذاہب سے ممتاز کرتا ہے مزید براں قران اور احادیث میں ایک کامیاب زندگی کے لئے کچھ کامیاب اصول بیان کے گے ہیں جن پر عمل کر کے آپ ایک خوشحال زندگی بسر کر سکتے ہیں


اسلم میں شادی سے مراد محض ایک معاشرتی رسم نہیں ہے یہ شادی شدہ جوڑے کی زندگی کے مختلف پہلووں کے لئے بہت اہمیت کی حامل ہے اگرچہ شادی کرنا اسلم میں فرض نہیں ہے لیکن آپ ﷺ نے شادی کرنے اور اس کی افادیت پر بہت زور دیا ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ


اے میری امت کے جوانو تم میں سے جو بھی شادی کرنے کی توفیق رکھتا ہے ضرور شادی کرے کیونکہ اسے نذر نیچی رہتی ہے اور پاکیزگی قائم رہتی ہے- اور جو شادی کرنے کی توفیق نہیں رکھتا وہ روزہ رکھے کونکہ روزہ رکھنے سے جنسی خواہش دب جاتی ہے یعنی کم ہو جاتی


آئیے اب ذرا اسلام میں شادی کے تصور پر ایک نظر ڈالیں کہ اس کی کیا کیا خوبیاں ہیں اور کون کون سی خصوصیات ہیں جو کہ دوسرے مذاہب میں شادی کے بندھن سے ممتاز ہیں


اسلامی شادی کی منفرد خصوصیات


اسلام میں شادی کو نکاح کا نام دیا گیا ہے یہ ایک دلہن اور دلہے کے درمیان نا صرف قانونی بلکہ معاشرتی بندھن کا بھی نام ہے جس سے انہں بیوی یر شوہر ہونے کی قانونی حیثیت مل جاتی ہے اس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس سے حق مہر کی شکل میں عورت کو اس کے حقوق کا تحفظ مل جاتا ہے اسی بارے میں قرآن  پاک میں ارشاد ہوتا ہے


ترجمہ


اور عورتوں کو شادی کے وقت دل کھول کے شادی کے تحائف دو


مہر اصل میں ایک تحفہ ہی ہے جو کہ دلہا شادی کے وقت اپنی دلہن کو دیتا ہے- یہ تحفہ یا نکاح کے فورا بعد دیا جاتا ہے یا پھر اس کے لئے کوئی تاریخ مقرر کی جاتی ہے اور بیوی سے صحبت سے پہلے خاوند کے لئے مہر کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے- مہر رقم کی شکل میں بھی ادا کیا جا سکتا ہے یا فی اس کے لئے کوئی اور قیمتی چیز جیسا کہ زیور یا جائیداد بھی دی جا سکتی ہے


ہر مرد پر لازم ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق اپنی بیوی کو مہر ادا کرے- ہاں اگر بیوی خود معاف کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں- آپ ﷺ کے ایک قریبی ساتھی سہل بن السعدی سے روایت ہے کہ


 آپ ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا کہ – شادی کرو اگرچہ تمہارے پاس مہر میں ادا کرنے کے لئے ایک لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو


تا ہم اگر کوئی شخص مالی توڑ پر خوش حال ہے اور زیادہ قیمتی تحفہ دے سکتا ہے تو ایسا کرنے سے کوئی گریز نہیں کرنا چائیے


اگر دنیا میں مختف کلچر سے تعلق رکھنے والے لوگ مسلمان اسلامی شادی کوئی مختف طریقے سے مناتے ہے دو بنیادی چیزیں ایک جیسی ہی ہوتی ہیں پہلی چیز تو یہ کہ اس میں نکاح کا عمل ہوتا ہے اور دوسری بات یہ کہ دولہا ایک دعوت کا اہتمام کرتا ہے- تحم لڑکی اور اس کے خاندان ف ایسا کرنا لازم نہیں ہے


آپ نبی کریم ﷺ نے اپنے پروکاروں کو ہدایت کی ہے وہ اپنی شادی کی خبر لوگوں میں پھیلائیں اور ان کے لئے دعوت کا انتظام کریں لیکن شادی کی تقریب میں فضول خرچی کی کو گنجائش نہیں ہے- دولہے کو چائیے کے اپنی حیثیت کے مطابق مہمانوں کی خاطر اور خدمت کرے جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا


شادی کی تقریب کا اہتمام کرو خواہ اس کے لئے تمہارے پاس ایک بھیڑ ہی کیوں نہ ہو


آپ نبی کریم ﷺ خود بھی اپنی شادی میں لوگوں کو دعوت دیتے حضرت انس سے روایت ہے کہ


آپ نبی کریم ﷺ نے اپنی کسی شادی کے موقع پر بھی  اتنی شاندار دعوت نہیں دی جتنی آپ کے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے شادی کے موقع پر دی اور وہ دعوت ایک بھیڑ پر مشتمل تھی


مندرجہ بالا احادیث سے شادی کے موقع پر دولہا کی طرف سے دعوت کی اہمیت کو اجاگر کیا گا ہے تا ہم جن لوگوں کو ایسے موقع پر بلایا جائے ان کا وہاں پر جانا بھی ضروری ہوتا ہے اس بارے میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا


اگر کسی کو شادی کی تقریب میں بلایا جائے تو اسے ضرور جانا چائیے بنی دعوت قبول کرنی چائیے



About the author

DarkSparrow

Well..... Leave it ....

Subscribe 0
160