صحیح قائدین کا انتخاب

Posted on at


صحیح قائدین کا انتخاب


عوام جتنی تعلیم یافتہ ہو گی فکری قوت اور بصیرت زیادہ ہو گی ۔ سیاسی شعور و آگہی اور بیدار مغزی کا گراف اونچا ہو گا۔ یہ دیکھا گیا ہے جمہوریت اور تعلیم و شرح خواندگی کا تعلق ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہے جمہوری نظام تعلیم یافتہ لوگوں کو اپنے  لئے مخلص ، اہل اور ایماندار نمائدوں کے چناؤ میں آسانی دیتا ہے ملک ترقی کی راہ سے پھسلتا نہیں اور حکمران ذاتیات کو قومی مفاد پر ترجیح نہیں دیتے اور اس کے برعکس اگر جمہوری نظام ہونے کے باوجود آبادی کا بیشتر حصہ ناخواندہ ہے جس سے جمہوریت کا عوام کے لئے اصل فائدہ اور مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ جمہوریت بے ثمر ہو جاتی ہے ، اس کی ایک بہت ہی عام سی مثال روس کی دی جاسکتی ہے افغان جنگ میں سکشت کے بعد روس کی معاشی حالت کمزور پڑ گئی تھی ، ملک میں مہنگائی اور بے روگاری نے عوام کی کمر توڑ دی تھی اور بے روزگاری کا یہ عالم ہو گیا تھا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی پاٹ ٹائم میں تلاش معاش کے لئے  بازاروں میں فٹ پاتوں پر ریڑیوں اور ٹھیلوں پر ماچسیں اور سبزیاں فروخت کرتے نظر آئے۔ کیونکہ ملک کی آبادی کی شرح خواندگی سو فیصد تھی جس نے روس کی معاشی حالت کو دوبارہ سہارا دیا۔ روس کی مجموعی معشیت کی صورت حال میں تیل کی سپلائی کا کلیدی کردار ہے اور روس تیل پیدا کرنے والا دنیا کا پہلا ملک ہے۔



 



اس کے برعکس دیکھا جائے جب روس افغان جنگ کے بعد ابتر صورت حال سے دوچار تھا اس وقت ہمارا ملک اقتصادی طور پر بہت بہتر تھا، بے روزگاری نہیں تھی، ڈالر کی قیمت روپے کے مقابلے میں بہت کم تھی لیکن ملک کے اندر جو کمزوری تھی وہ شرح خواندگی میں کمی تھی اس وقت آبادی کا صرف بیس فیصد طبقہ پڑھا لکھا تھا جوں ہی جنرل ضیاء الحق کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور عام انتخابات کرائے گئے جس میں عوام نے ایسے نمائدوں کا چناؤ کیا جو کسی صورت قوم و عوام کے حق میں مخلص اور مناسب نہیں تھے، جنہوں نے عوام کی زندگیاں میں خوشحالی لانے کی بجائے ان کو زندگی کے مذید مسائل میں الجھا دیا اور ہر پانچ سال بعد الیکشن میں  ایسے ہی نمائدوں کا چناؤ کا عمل جاری ہے اور آج نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے ایک زرعی ملک میں آٹے چینی اور دیگر ضرویات زندگی کی اشیاء عام کی ہوش روبا قیمتوں نےآدمی کی قوت خرید کی سکت کو ختم کر دیا ہے ، ملک کی پچاس فیصد آبادی غربت کے خط سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔  نااہل عوامی نمائدوں کے چناؤ کی وجہ سے  عوام کی مشکلات نظام میں ابتریاں ثابت کرتی ہیں کہ علم کا حصول ایک قوم کے مسائل کے سلجھانے  کے لئے کتنا ضروری ہوتا ہے اور تعلیم یافتہ قوم ہی ملک کی ترقی کے زینوں کو آسانی اور تیزی سے عبور کر سکتی ہے۔ جو روس کی صرف دو عشروں میں دوبارہ ترقی اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر خود کفیل ہونا ہمارے لئے ایک بہترین مثال ہے کیونکہ روسی عوام پڑھے لکھے ، باشعور اور محب وطنہیں جنہوں نے ملک کی بھاگ دوڑ کی ذمہ داریاں محب وطن اور ذمہ دار لوگوں کا سونپی ہیں۔



دنیا بھر کے جمہوری ملکوں میں   پارلیمانی نظام کی بجائے صدارتی  نظام  کو ترجیح دی جارہی ہے اور حکومت سازی کے لئے صدر کو براہ راست انتخابات سے چنا جاتا ہے۔ جس سے عوام کو اپنے نمائدوں کے اچھے برے فرق کی تمیز پتہ چل جاتی ہے جو اپنے ملکی فرائض منصبی کو بااحسن طریقے سے ادا کر سکے۔


پاکستان میں موجودہ نظام میں سربراہ مملک وزیراعظم ہوتا ہے جو عوام کا براہ راست نمائدہ نہیں۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ عوام کو اپنا حکمران براہ راست چنے کا اختیار نہیں۔ آئین میں ترمیم سے یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ عوام اپنا حکومتی نمائدہ براہ راست چن سکے۔



اس کے علاوہ موجودہ نظام حکومت میں کابینہ میں منتخب وزراء کا کابینہ میں چناؤ کا معیار صرف یہ ہےکہ وہ صرف قومی اسمبلی کا رکن ہو نہ کہ اس کے علاوہ اس کے پاس متعلقہ محمکے کے تقاضوں کے مطابق کوئی مہارت یا صلاحیت۔ موجودہ انتخابی عمل  میں منتخب نمائدے کا تعلیم کا معیارصرف بی اے پاس ہونا چاہیے اور معاشرے میں اس کی نیک نامی اور قابلیت کی کوئی سند الیکشن کیمشن کو نہیں چاہیے ۔ یہ سارے عوامل اس بات کو تقاضا کرتے ہیں جدھر کامیاب جمہوری نظام کے لئے تعلیم یافتہ عوام کا ہونا ضروری ہے ادھر حکومتی نظام کے اندر بھی ایسی  کمزوریوں کا ادراک ضروری ہے جو صحیح قائدین کے چناؤ میں رکاوٹ کو دور کرے۔  


=======================================================================================================



160