یادگار سفر

Posted on at


یوں تو مجھے سفر کرنے کا کئی بار اتفاق ہوا ہے مگر ایک سفر جو میں نے پچھلے سمر میں کیا خاصا دلچسپ تھا اور مجھے اب تک یاد ہے . ہوا یوں كے سمر شروع ہونے سے پہلے ہی صلح مشورے ہونے لگے . کوئی کچھ تجویز پیش کر رہا تھا ، کوئی کچھ . ابو نے تجویز پیش کی كے اگر تم لوگ اگست کا مہینہ میں مری كے پہاڑ پر چلو تو اگست بھی دیکھیں گے اور صحت افزا مقام کی سیر بھی کریں گے .14 اگست کو مری میں بہت ہی رونق ہوتی ہے کیوں كے وہاں پر ملک كے ہر حصے سے لوگ آئے ہوئے ہوتے ہیں . موسم خوشگوار ہوتا ہے . برسات كے حبس كے دن بھی وہیں گزار لیں گے . ہم سب نے ابو کی تجویز سے اتفاق کیا اور ہوتے ہی اپنا اپنا اسکول کا کام کرنا شروع کر دیا تاکہ مری جانے سے پہلے ذمہ داری سے فارغ ہو جائیں . ذہن سے یہ بوجھ اترا ہو گا . بے فکر ہو کر سیر کریں گے .

سفر کا آغاز کرنے كے لیے پہلی اگست کی تاریخ مقرر ہوئی . پہلی اگست بھی آیا ہم اس دن بہت ہی خوش تھے کیوں كے ہم سب گھر والے مل کر جا رہے تھے . مری دیکھنے کا یہ ہمارا پہلا موقع تھا . اِس لیے یہ سفر ہمارے لیے بالکل ہی نیا تھا . کوہ مری کا تصور ہی ہمارے لیے خوشی کا باعث بن رہا تھا . اس دن ہم معمول سے بھی جلدی اٹھ کھڑے ہوئے . ہَم ناشتہ کرتے ہی چل پرے . ابو نے کار نکالی اور سامان کار میں رکھا اور ہَم روانہ ہو گئے . 

                    

آج ہَم اِس قدر خوش تھے كے کبھی کہیں جاتے ہوئے اتنے خوش نہیں ہوتے تھے . گری ملتان روڈ پر چل رہی تھی . ہَم روی روڈ اور وہاں سے گزارتے ہوئے دریا روی كے پل پر میں پہنچ گئے . دریا روی پر بہت سے لوگ سیر کرنے آئے ہوئے تھے . کوئی اپنے دوستوں كے ساتھ کوئی  ساتھ والے پارک میں گراس پر بیٹھے تھے  . پل پر ابو نے 20 روپیز تولل ٹیکس كے دیئے اور آگے نکل گئے . اب ہم گٹ روڈ پر پہنچ گئے تھے  سے گزر کر لاہور کی حدود سے نکل گئے . ابھی ایک گھنٹہ ہوا تھا كے ہم گوجرانولہ شہر پہنچ گئے . ہم اس كے ریلوئے اسٹیشن سے گزر کر آگے نکل رہے تھے . اس كے اوپر پل بھی بہت اچھا دکھائی دے رہا تھا . چند میں یہاں سے گزر کر گوجرانولہ سے بھی نکل گئے . اسی طرح بہت سے چھوٹے شہر آتے رہے اور ہم وہاں سے گزارتے رہے اور پہنچ گئے . یہاں ہم تھوڑی دیر كے لیے ٹھہرے اور ایک ریسٹورنٹ میں چلے گئے وہاں ہم نے بوتل پی . ابو اور امی نے چائے پی . اسی طرح وہاں سے بھی خوشی خوشی آگے چل دیئے . کچھ دیر ہماری کار چلتی رہی اور ہم راولپنڈی پہنچ گئے . راولپنڈی اور اسلام آباد آج کل ایک ہی شہر بن گیا ہے . مری کو جانے كے لیے یہ اچھا رستہ ہے جو اسلام آباد كے باہر سے ہی سیدھا مری کو جاتا ہے . سَر سبز شاداب پودوں كے درمیان سے گزارتے ہوئے ہَم یہ سے بھی نکل آئے . ابھی تھوڑی دور تھے كے چڑہائی شروع ہو گئی . اب پہاڑ نظر انا شروع ہو گئے اور ٹھنڈے پانی كے چشمے بھی یہیں سے شروع ہو جاتے ہیں .

                             

ایسے ہی پہاڑوں پر سفر کرتے ہوئے ہم مری پہنچے . اگست کیوں كے نزدیک آرہا تھا مری کی رونق پڑھ رہی تھی اِس وجہ سے مال روڈ پر بہت رش تھا . لڑکیاں سیر کرتی نظر آراہی تھیں ، بچے بھی بہت خوش نظر آرہے تھے . دیکھتے ہی دیکھتے بارش ہونے لگتی اور کچھ دیر بعد بارش رک جاتی . ہم سارا دن قدرت كے نظاروں سے لطف ہوتے رہے . مری کی سیر اِس قدر دلچسپ تھا كے اِس كے منظر میری آنکھوں كے سامنے آج بھی اسی طرح پِھر رہے ہیں .



About the author

furqan-azam

Name: Furqan Azam
Education: BS electronic engineering (In Progress)
Profession: : freelance writer and blogger.
Hobby: Coins Collection.
I am crazy about playing video games like FIFA 14.

Subscribe 0
160