ڈپٹی نذیر احمد کے حالات زندگی اور ان کے طرز تحریر کی خصوصیات(حصہ دوم)

Posted on at


ڈپٹی نذیر احمد کی زبان سادہ اور سلیس تھی۔ وہ ایسی زبان میں مقصد بیاں کرتے تھے کہ پڑھنے والے کے دل میں اترتا چلا جاتا تھا۔ ان کی تحریر اگر چہ سادہ اور آسان ہوتی ہے لیکن محاوروں کی کثرت اور عربی و فارسی کے نامانوس الفاظ کا استعمال گرا ں ہوتا ہے۔ بقول مرزا فرحت اللہ بیگ: "نذیر احمد عربی و فارسی کے الفاظ نہیں لاتے بلکہ پہاڑ کھڑا کر دیتے ہیں"۔

ڈپٹی نذیر احمد کی تحریروں میں کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ وہ تو مقصد کی خاطر حقیقت کا خون کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ انہوں نے جتنے ناول بھی لکھے ہیں وہ تعلیمی، اخلاقی اور مذہبی نقطہ نظر سے لکھے۔وہ سرسید کے ساتھ فکری و قلمی تحریک میں شریک تھے۔ چنانچہ انھوں نے اسی کے زیر اثر مسلمانوں  کی اخلاقی اور معاشرتی اصلاح کو اپنا مقصد بنایا۔

ناول میں پلاٹ کردار اور مکالمے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ڈپٹی نذیر حمد کے ناولوں میں پلاٹ مکمل بھی ہیں۔ اور واضع بھی، ان میں ابتداء ، وسط اور تکمیل کا احساس بھی پایا جاتا ہے، قصہ رفتہ رفتہ بڑھتا ہے اور پھیلتا ہے۔ البتہ ان کے کردار اسم بامسمٰی ہوتے ہیں۔ ناموں ہی سے ان کی اصلیت واضع ہوجاتی ہے۔ اگر وہ کسی کردار کو نیک بتلانا چاہتے ہیں تو اسے بڑھا کر فرشتہ بنا دیتے ہیں اور اگر کسی کردار کو برا بتلانا مقصود ہوتو اسے ایسا بیان کر دیتے ہیں کہ شیطان معلوم ہونے لگتا ہے۔ نذیر احمد انہیں اپنے تعارف سے زندہ  رکھتے ہیں۔ وہ خود اپنے منفرد عمل سے زندہ نہیں رہتے ۔ ان کی کردار نگاری پر یہی اعتراض ہے کہ ان کی فطری خامیاں اور کمزوریاں نہیں پائی جاتیں۔

ڈپٹی نذیر احمد عورتوں کی زبان ، انداز تکلم اور طرز گفتگو سے خوب واقف ہیں۔ بے تکلف نسوانی محاورات اور عورتوں کے مکالمے تحریر کرتے چلے جاتےہیں۔  جن میں سلاست و روانی کا دامن ذرا بھی تار تار نہیں ہوتا۔

ڈپٹی نذیر احمد کا انداز خطیبانہ ہے جس کی وجہ سے ان کی تحریروں میں جوش اور اثر پیدا ہوگیا ہے۔  ان کی عبارتوں کے بعض ٹکڑے تو ایسے معلوم ہوتے ہیں ، جیسے کوئی بہت اچھا خطیب وعظ کر رہا ہوں۔ "توبتہ النصوح" اور "ابن الوقت" میں ایسے ٹکڑے بہت ہیں۔ اس اعتبار سے ان کے مدمقابل کوئی بھی نہیں۔

نظیر احمد کے افسانوں میں ظریفانہ رنگ موجود ہے۔ خطیبانہ انداز میں تقریر کرنے پر جب ان کا قاری اکتاہٹ محسوس کرتا ہے تو وہ ایک دم مزاحیہ واقعہ درمیان میں لا کر ماحول کو خوشگوار بنا دیتے ہیں۔ وہ عملی زندگی میں نہایت زندہ دل اور ظریف انسان تھے۔ اور یہی ظرافت اور زندہ دلی ان کی تحریروں میں بھی ملتی ہے۔

نذیر احمد جزائیات نگاری میں منفرد ہیں۔ بقول ایک نقاد اس شخص کی وسعت نظر تو یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ یہ اسلام کی قاموس لکھے ۔ چنانچہ ان کی جزئیات نگاری سے ان کی وسعت نظر اور وسعت علم کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ اپنے ناولوں میں وہ ایک ایک چیز کا بیان دلفریب انداز میں کرکے پورا منظر قاری کے سامنے لے آتے ہیں اور پھر کسی قسم کی تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160