افغانستان اور ہندوستان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تیزاب گردی کا استعمال کہا کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟

Posted on at


تیزاب گردی۔۔۔۔۔۔۔یہ لفظ ہی ایسا ہے، جسے دیکھ کر پڑھ کر عجیب لگتا ہے اور اِس لفظ کا شکار عموماً عورت ذات ہی ہوتی ہے۔ اِسلام نے عورت کو ایک اعلیٰ مقام اور درجہ دیا ہے لیکن اب بھی اِس معاشرے میں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جن میں عورت کی عزت کرنے کی زرا برابر بھی پرواہ نہیں ہے۔ مرد پر ہر معاشرے میں ایک اہم ذمہ داری ہوتی ہے جسے نبھانا اُس کا فرض ہوتا ہے۔ عورت کو بھی معاشرے میں ایک اِہم مقام حاصل ہے۔ جہاں تک آج کی عورت کو دیکھا جائے تو شاید یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ اب عورت مرد سے بھی بہت آگے جا چکی ہے۔ عورت نے زندگی کے ہر شعبے ہر میدان میں اپنا آپ منوایا ہے۔ شاید ہی اب کوئی ایسا شعبہ بچا ہو کہ جس میں عورت ذات نے خود کو وہاں ثابت نہ کروایا ہو۔ ہمارے معاشرے میں موجود چند افراد نے عورت کو محض ایک کٹھ پتلی اور کانچ کی گڑیا بنا کر ظلم کا نشانہ بنایا ہے۔ پہلے زمانے میں عورت کو ذِلّت کی نشانی سمجھ کر زندہ دفن کر دیا جاتا تھا، تب اسلام نے اِس غلط کام کا خاتمہ کیا اور عورت کو ایک اعلیٰ مقام سے نوازا۔ بات جب عورت پر ہوتی ہے تو بہت سی اُنگلیاں اِس موضوع پر اُٹھتی ہیں کیونکہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسی عورتیں بھی موجود ہیں کہ جن کی وجہ سے باقی وفا نبھانے والی عورتوں کو بھی بے وفائی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، صرف یہ سمجھ کر کہ یہ بھی باقی بے وفا عورتوں کی طرح نکلیں گی۔  

 

جب سے تیزاب گردی شروع ہوئی ہے تب سے بِلاشبہ یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ اِس گھناؤنے جرم کا ہزاروں عورتیں مردوں کے تیزابی حملوں کا شکار ہوچکی ہیں۔ ساتھ میں یہ حقیقت بھی دیکھنے اور سننے میں ملتی ہے کہ عورت بھی اب اِس جرم میں آ چکی ہے مطلب کہ وہ مرد سے بدلہ لینے کے لئے مرد کو بھی تیزاب گردی کا نشانہ بناتی ہے۔ جنوبی ایشیاء میں تیزاب گردی کے واقعات اِس لئے دیکھنے کو ملتے ہیں کیونکہ لڑکیاں وہاں اپنی عزت و عصمت کو بچانے کے لئے آشنا مردوں کی بات ماننے سے قطعی انکار کر دیتی ہیں۔ جس کی وجہ سے مرد اُسے اپنی زیادتی کا نشانہ تیزاب گردی کے ذریعے بناتا ہے۔ دوسری سب سے بڑی اور خاص وجہ یہ ہے کہ وہ مردوں کی یکطرفہ محبت یا تعلقات رکھنے پر اصرار کو ٹھکرا کر اُن کی بات نہیں مانتی اور صاف اِنکار کر دیتی ہیں، جس کا بدلہ لینے کے لئے مرد اُن کے چہرے کو سب سے پہلے نشانہ بناتا ہے اور اُن کے چہروں پر تیزاب پھینک کر ہمیشہ کے لئے اُنہیں اپنے اصل چہرے سے بے چہرہ کر دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے عورت عمر پھر ساری زندگی دنیا سے اپنا چہرہ چھپاتے گزار دیتی ہے۔

 

جہاں تک ہمارے پڑوسی ملک افغانستان کا اِس بات سے تعلق ہے تو وہ بہت حد تک مختلف ہے۔ وہاں اِنتہا پسند افراد نے تیزاب کو سکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والی طالبات کے خلاف ہتھیار کے طور پر یہ ہتھکنڈا استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ وہاں کا قانون اور دستور یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں عورت ذات کو زبانی کلام سے تعلیم کی خاطر گھروں سے نکلنے کے لئے منع کیا جاتا ہے۔ جب اُنہیں یہ ظاہر ہونا شروع ہوتا ہے کہ شاید اُن کی زبانی کلام سے کسی پر کوئی فرق نہیں ہوا تو وہ پھر اپنا ہتھیار یعنی تیزاب کا استعمال کرتے ہیں۔ اِن نافرمانبردار طالبات کو سبق سکھانے کے لئے اِن کے چہرے کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور اِن کی خوبصورتی کو ہمیشہ کے لئے تیزاب گردی کا نشانہ بنا کر جھلسا دیا جاتا ہے۔ ایک اور بھی اِن لوگوں میں عورت کو تیزاب گردی کا نشانہ بنانے کی وجہ ہے جو کہ یہ ہے کہ جو عورتیں وہاں بے پردہ ہوتی ہیں اور ہجاب نہیں کرتی اُن عورتوں کو بھی اِس ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ افغانستان میں عورت کو عموماً اِنہی دو وجوہات کی بناء پر اب تک نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ وہاں پر بے وفائی اور اِس سے جڑی اِس طرح کی کوئی بھی بات نہیں ہوتی جو عموماً دوسرے ممالک میں دیکھنے کو ملتی ہے۔  

 

اب بات آتی ہے ہمارے دوسرے پڑوسی بھارت کی۔ جس کی آبادی کو دیکھا جائے تو وہ پاکستان کی آبادی کی نسبت کئی گناہ سے بھی زیادہ آتی ہے۔ بھارت میں اِس قسم کے واقعات آئے روز دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ اِس کے علاوہ بھی عورت کو بہت سی زیادتیوں کا نشانہ اِس ملک میں بنایا جاتا رہا ہے۔ بھارت ایک ایسا ملک ہے کہ جس میں عورت کا معاملہ بہت مختلف ہے، یہاں پرعورتوں کو جنسی زیادتی کا بھی شکار بنایا جاتا ہے۔ عورت کے معاملے میں بھارت بہت حد تک پرانی صدیوں میں جی رہا ہے یہاں عورت کو جتنی آزادی ہے وہاں ہی اپنی عزت اور خوبصورتی کا بھی ڈر لگا رہتا ہے کہ وہ کسی بھی وقت اِن سے چھِن سکتی ہے۔ بھارت میں عورت کو بے وفائی کے نام پر تیزاب گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سکول، کالج جاتی ہوئی لڑکیوں کو راستے پر روک کر اُنہیں تنگ کرنا اور اُن سے اپنی بات منوانا لڑکوں نے عام روٹین بنا لی ہے۔ اگر لڑکیاں اُنہیں دھدکار دیں اور منع کریں تو اِس کے بدلے اُنہیں اپنے چہرے کی قربانی دینی پڑتی ہے یا پھر جنسی زیادتی کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ ایسے میں یہ بات صاف ظاہر ہے کہ مرد عورت کو اِس لئے اِس ظلم کا نشانہ بناتا ہے کیونکہ وہ خوب جانتا ہے کہ عورت کے پاس چہرہ ہی واحد ایک ایسا خزانہ ہے کہ جس کے سہارے وہ دنیا میں جیتی ہے یہ چہرہ ہی اِن سے چھین لیا جائے تو اِس سے بڑھ کر اِن کے لئے اور کوئی بھی سزا درست نہیں رہے گی۔      

 

====================================================================

........................................................................................................................................
If you people want to read and share my any previous blog open the link below: 
http://www.filmannex.com/Aafia-Hira/blog_post 
Subscribe my Page Aafia Hira 

You Can Follow me on Twitter: Aafia Hira

Written By: Aafia Hira          

Thanks For Your Support Friends.
........................................................................................................................................

===================================================================  



About the author

Aafia-Hira

Name Aafia Hira. Born 2nd of DEC 1995 in Haripur Pakistan. Work at Bit-Landers and student. Life isn't about finding your self.LIFE IS ABOUT CREATING YOURSELF. A HAPPY THOUGHT IS LIKE A SEED THAT SHOWS POSITIVITY FOR ALL TO REAP. Happy to part of Bit-Landers as a blogger.........

Subscribe 0
160