جہالت و غربت سے شخصی بے تو قیری تک

Posted on at


جب کسی قوم میں نظم و ظبط تنظیم یا ڈسپلن کی جگہ عدم تنظیم لے لیتی ہے تو ایسے معاشرے میں ثقافتی قانون گریزی کا رجحان عام ہو جاتا ہے۔ پھر اصولوں، ضابطوں، قوانین کو پس پشت ڈال کر ہر نا جائز کام کو جائز قرار دے کر توقع یہ کی جاتی ہے کہ اسے ضرور ہو جانا چاہیئے پا اصول یا ضابطے قانون کے پابند انسانوں کو ناپسند کیا جاتا ہے۔ اور غیر اصولی کام کرانے کے بعد سر فخر سے بلند کر کے بتایا جاتا ہے۔ کہ یہ کام فلاں فلاں جا کر ہمارا کام کیا ہے۔ یہ باتیں کسی معاشرے کو بیمار کرنے کے لیئے کافی ہوتی ہیں۔

جس معاشرے کی بات ہم نے اوپر کی ہے اس معاشرے کے عام افراد خودداری اور خود اعتمادی سے محروم رہتے ہیں۔ اس مھرومی میں سب سے بڑا کردار اس بے تو قیری نے عطا کیا ہے جو اس معاشرے کے ان انسانوں کو ملی ہے جس اوپر ذکر کیا ہے۔ جیب اور پیٹ خالی ہوں تو خودداری اور خود اعتمادی انسان سے دور رہتی ہے۔ ہمیں اس ملک کے لوگوں کو جہالت سے نکال کر علم کی روشنی میں لانا ہے۔ تعلیم عام ہو گی۔ لوگ مختلف ہنر سیکھ کر باعزت روٹی کمانے لگے گے۔ تو غربت سے نجات حاصل ہو گی۔ موجودہ سیاسی نظام کو تبدیل کرنے میں بھی اسکی مدد ملے گی۔

پھر وہ لوگ عوامی نمائیندوں کے طور پر منتخب ہو کر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نہیں پہنچ سکیں گے۔ جنکی امانت دیانت مشکوک ڈگریاں اور تعلیمی اسناد مشکوک ہوتی ہیں۔ اور جن پر عدالتوں میں کئی کئی مقدمات چل رہے ہوتے ہیں۔ بے توقیر ہونے والے افراد کو عزت، تعظیم و تکریم واپس کر کے پاکستان کا مستقبل روشن کرنا ہے۔ تو اس قوم کو اپنی موجودہ حالت سے باہر نکلنے کے لیئے جد و جہد کرنی ہو گی وہ قوم جو طرح طرح کی اذیتوں سے مفلوج کر دی گئی ہے۔ اسکے تن کمزور و ناتواں میں ابھی سانس باقی ہے۔ اور جب تک سانس تب تک آس۔

اس سلسلے میں انفرادی کوششوں کو اجتماعی کوششوں میں بدل کر ایسے اداروں کو مظبوط بنانے کی ضرورت ہے جو علم کی روشنی سے جہالت کے اندھیروں کو دور کرنے میں لگے ہوۓ ہیں۔ 



About the author

hadilove

i am syed hidayatullah.i have done msc in mathematics from pakistan.And now i am a bloger at filmannex.and feeling great

Subscribe 0
160