مولانا شبلی نعمانی کے حالات زندگی اور ان کے طرز تحریر کی خصوصیات

Posted on at


بزرگوں کی سیرت کا مطالعہ شخصیت کی تعمیر میں معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے اور کسی بھی زبان کے لٹریچر میں اس سرمایہ کی موجودگی اس کی عظمت کی دلیل ہے۔ مولانا شبلی نعمانی اس اعتابر سے بڑے نامور ہیں۔ کہ انھوں نے اردو میں بزرگوں کی سیرت کا سرمایہ فراہم کیا۔ ان کا شمار اردو نثر کے عناصر خمسہ میں ہوتا ہے۔

مولانا شبلی نعمانی 1857ء میں ضلع اعظم گڑھ کے ایک گاؤں بندول میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شیخ حبیب اللہ اپنے علاقے کے مشہور وکیل تھے۔ شبلی نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد عربی ادب ، فلسفہ و منطق اور حدیث و فقہ کی تحصیل کے لیے لاہور ، رام پور، غازی پور، سہارنپور اور لکھنؤ وغیرہ کا سفر کیا۔ مولانا محمد طارق چڑیا کوٹی، مولانا ارشاد حسین ، مولانا احمد علی اور مولانا فیض الحسن سہارنپوری جیسے اپنے وقت کے نامور علماء سے فیض حاصل کیا۔ اس طرح انیس سال کی عمر میں تعلیم سے فارغ ہو گئے۔ اس کے بعد وکالت کا امتحان پاس کیا اور اپنے والد کا ہاتھ بٹانے لگے۔ لیکن چونکہ طبیعت کا رجحان علم و ادب کی طرف زیادہ تھا اس لیے وکالت کا پیشہ ترک کر دیا۔ اسی دوران جب اپنے چھوٹے بھائی سے ملنے علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی۔ وہ ان کی علمی لیاقت سے بے حد متاثر ہوئے اور انھیں عربی و فارسی کا پروفیسر مقرر کیا۔ یہاں مولانا شبلی نعمانی کو سرسید اور پروفیسر آرنلڈ کی صحبت میسر آئی جس سے ان کے علمی مذاق میں نکھار پیدا ہوا۔ پروفیسر آرنلڈ نے ان سے عربی پڑھی اور شبلی نعمانی نے ان سے فرانسیسی سیکھی۔ علی گڑھ میں کم و بیش سولہ سال تک تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔

1898ء میں سرسید کا جب انتقال ہوا تو انھوں نے علی گڑھ کی ملازمت ترک کر دی اور حیدرآباد دکن کے محمکہ تعلیم سے وابستہ ہوگئے۔ اس کے بعد لکھنؤ کی مشہور درسگاہ " ندوۃالعماء" کے ناظم مقرر ہوئے اور اس کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔آخرمیں 1913 ء میں اعظم گڑھ آکر "دارالمصنفین" کے نام سے ایک علمی ادارہ قائم کیا جو اب تک لکھنؤ میں موجود ہے اور جس کی علمی و ادبی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ حکومت نے شبلی نعمانی کو ان کی خدمات کے صلہ میں "شمس العماء" کا خطاب دیا۔ 1914ء میں مولانا شبلی نعمانی کا انتقال ہو گیا۔

سیرت النبی، الفاروق، المامون، الغزالی، شعرالعجم، سوانح مولانا روم، سیرت النعمان، موازنہ انیس و دبیر، علم الکام ، اورنگ زیب عالم گیر پر ایک نظر اور بے شمار مقالات ان میں سے یادگار ہیں۔ شاعری میں مثنوی صبح امید، قطعات اور دیوان شبلی موجود ہیں۔

مولانا شبلی ، سرسید کی فکری اور اصلاحی تحریک کے ایک اہم رکن شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کی تصانیف عالمانہ، محققانہ اور فلسفیانہ استدال اور انداز کے لحاظ سے مستند یورپی تصانیف سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔ ان کے فن میں ایک قسم کی جدت بھی ہے اور دل آویزی بھی۔ وہ بیک وقت شاعر، فلسفی ، مورخ، ناقد، ماہر تعلیم، فقیہ اور محدث سبھی کچھ تھے۔ لیکن ناقدین کے خیال کے مطابق وہ سوانح ، تاریخ  اور تنقید کے مرد میدان ہیں جہاں ان کا فن اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160