قومی ادارے اور جذبہ حب الوطنی

Posted on at


قومی ادارے اور جذبہ حب الوطنی


چار دیواری کا تحفظ اور چھت جیسا راحت شاید ساری دنیا میں میسر نہ ہو۔ خانہ امور کی زندگی تہذیب تمدن، اخلاقیات اور باصلاحیت اقدار  معاشرتی زندگی کی  خوشحالی  و امن پر منحصر ہے. محب الوطنی اور مٹی سے محبت کا جذبہ معاشرتی خوشحالی میں پنہاں ہے۔ گویا بلند معیار زندگی اور کامیاب زندگی کے ضابطوں اور اصولوں کی بنیاد خوشحال معاشرتی زندگی ہے جو ایک کامیاب ترقی یافتہ ریاست کی مرہون منت ہے ۔ کامیاب ریاست کی بنیاد مضبوط جمہوری اعلیٰ اخلاقی اقدار اور آزاد و بدعنوانیت سے پاک  اداروں پر استوار ہے۔ آزاد عدلیہ ، بلا امیتاز عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق قانون پر عملدرآمد کراتی ہے اور مقنہ کے منظور شدہ قانون  کی عملی صورت  اور حکومتی رٹ کو لاگو کرنے کے لئے  انتظامیہ ذمہ داری ادا کرتی ہے۔ یہ تینوں ادارے ریاست کے اہم ستون ہیں۔ ریاست کے دیگر اداریں جو فرائض منصبی ادا کرتے ہیں، الیکشن کمیشن ، پبلک سروس کیمشن، خزانہ جس پر نفاز ٹیکس اور ٹیکس کولیکشن کی ذمہ داری ہے، نفاز قانون، محکمہ مال، بلدیات، صحت، خوراک ، تعلیم اور ملک کی سلامتی اور  امن عامہ کو برقرار رکھنے کے مطالق دیگر محکمہ جات ہیں۔



 


 ایک کامیاب ریاستی امور میں محکمہ ھذا کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ ان محکموں کا کردار ملک کے اندر میرٹ کی بنا پر قابل اور باصلاحیت افراد کی حوصلہ افزائی اور انھیں اہم ملکی ذمہ داریاں سونپنا، عدل و انصاف و غیر جانب داری،  شفافیت اور احتساب، قانون کی حکمرانی، وسائل و انسانی حقوق میں مساوات، اہم قومی امور کے حل طب مسائل اور فیصلوں میں عوامی مشاورت اور شرکت، عدم تشدد، وطن پرستی  اور عدلیہ کی آزادی کا احترام   اصولوں کی پاسداری کرنا ہے۔ یہ اداریں بلاواسطہ ملک کے افراد کی تراش خراش کی تربیت گاہ ہیں۔  اگر ان اہم ریاستی امور پر محکموں کے سربراؤں کی جانب سے غفلت اور عدم توجہ بھرتی جائے تو ملک اپنی حقیقی منزل اور ترقی کی شاہراہ سے پھسل جاتا ہے۔  موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے وطن عزیز پاکستان بھی جذبہ حب الوطنی سے عاری ہو چکا ہے قومی رہنماؤں کی   سیاسی ناپختگی کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف ملک کی سلامتی سے متعلقہ اداریں اندرون ملک خطرناک فتنے سے نبرد آزما ہیں جس سے ملک خانہ جنگی کی کفیت سے دوچار ہے تو دوسری طرف ملکی اداروں کے سورما رہنما وطن عزیز کو انقلاب و دھرنوں جیسے غیرقانونی اوچھے ہتھکڈوں سے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔



اگر یہ قائدین جذبہ وطن پرستی سے سرشار ہیں تو موجودہ ملکی نازک صورت حال میں ایسا منفی کردار غیر مناسب ہے اور عوام کے مذید مصائب کھڑے کرسکتا  ہے  ، کیونکہ جذبہ حب لاوطنی کا پہلا دستور تو وطن میں رائج قانون کا احترام کرنا ہوتا ہے۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اور قومی اداروں کی مسند اعلیٰ پر فائز حکمرانوں کو بھی اپنے رویے پر نظرثانی کرنی چاہیے کیونکہ جمہوریت انفرادی سوچ کا نام نہیں بلکہ اجتماعیت کا نام ہے فیصلوں میں شراکت اور جائز مطالبات ، مشاورت و آراء کا احترام ہے۔ حکمرانوں کے انفرادی فیصلوں نے آج تک قوم و ملک کی کوئی خدمت نہیں کی الٹا ریاست کے شہری الجھن، خوف مایوسی کا شکار ہوئے ایسے نفسا نفسی کا شکارہوئے کہ دولت کے جائز و ناجائز حصول کے طریقوں کی تمیز کو ختم کر دیا ہے جذبہ حب الوطنی کو دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ذاتیات ترجیعات بن گئیں  آج قومی اداروں میں اس جذبہ کی ناقدری نے قومی مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔



عوام کی ترقی و خوشحالی کے مطالق اداریں موجود ہیں پھر بھی قوم زوال پزیری کی طرف سفر کر رہی ہے اداروں کی کارکردگی زبوں حالی کا شکارہے۔ مثلاً محکمہ داخلہ ملک کے اندر امن وعامہ کے لئے سالانہ اربوں روپے مختص کرتا ہے اس کے باوجود ملک میں سنگین جرائم،  بھتہ خوری، ڈاکہ زنی و چور بازاری ، اغواء برائے تاوان، معصوم جانوں کا قتل عام  جیسی وارداتیں محمکے کی کارکردگی کا منہ چاٹ رہی ہیں۔ محکمہ انصاف کے ہوتے ہوئے بھی لاکھوں پاکستانی شہری انصاف کے لئے منتظر ہیں۔ بجلی و گیس کے محکمہ کے لئے حکومت سالانہ اربوں روپے مختص کرتی ہے پھر بھی ملک کے اندر شدید بجلی و گیس کا بحران ہے اور ملک کا معاشی پہیہ جام ہے۔ محکمہ زراعت کے لئے اربوں روپے مختص کئے جاتے ہیں لیکن پیداواری اہداف جوں کے توں ہیں۔ برساتی پانی کو آبپاشی کے لئے کو ذخیرہ کرنے کا کوئی بندبست نہیں ملک کے نشیبی علاقوں کا اکثر حصہ غیر زرعی  اور بنجر پڑا ہوا ہے اور مون سون کے موسم میں برساتی پانی سیلابی صورت اختیار کرکے سمندر برد ہوجاتا ہے۔ محکمہ خزانہ عام متوسط طبقے کے پاکستانیوں سے ٹیکس تو لے رہا ہے لیکن بڑے ارب پتی صنعت کاروں ، نوابوں کو ٹیکس نیٹ ورک میں لانے کی کوئی سہی نہیں کرتا۔ یہی  زبوں حالی  صحت و تعلیم کے محکموں کی ہے اگر قومی اداریں جذبہ حب الوطنی کو اپنا شعار سمجھ لیں اور فرائص منصبی کو پہلی ترجیع تو قوم اقوام عالم میں اپنا جائز مقام پا لیں گی اور ملک میں  نظاموں کے مذید برے تجربات  محض قومی ترقی اور خواب کی تعبیر میں انتظار کو بڑھوتری دیں گی جس طرح ماضی میں ہوتا آیا ہے۔ 


===================================================================================



160