عبدالستارایدھی

Posted on at


حضرت ابوذر غفاری راضی الله تعالی عنہہ جن سے آپ با خوبی واقف ہیں ، آپ حضرت محمد ﷺ کے دست خاص میں سے ایک ہیں حضرت علی راضی الله تعالی عنہہ فرماتے ہیں کہ – ابوذر نے ایسے علم کو حاصل کے ہوئے ہیں جن سے لوگ عاجز ہیں مگر اس کو آپ نے محفوظ کیا رکھا ہے اسلام میں حضرت ابوزر راضی الله تعالی عنہہ کو ایک خاص مقام حاصل ہے وہ ایک بہت اچھے اور جرات مند صحابی تھے جب پہلے فل انہوں نے خود مکہ آ کر اسلام قبول کیا تو وہ یہ دور تھا جب مکہ میں مسلمانوں کے خلاف تعصب عام تھا آپ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا – اے ابوذر ابھی اپنے اسلام کو کسی پر ظاہر نہ کرنا اور چپ چاپ اپنی قوم میں چلے جاؤ جب مکہ میں ہمارا غلبہ ہو جائے گا تو واپس چلے آنا انہوں نے فرمایا – اے اللہ کے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ قسم ہیں مجھے اس ذات کی جس کے قصبے میں میری جان ہے میں کلمہ توحید کو ان بے ایمانوں کے درمیان چلا کر پڑھوں گا  - چناچہ آپ اسی وقت مسجد حرام میں تشریف لے گئے اور کلمہ توحید بلند آواز میں پڑھے لگے یہ سننا تھا کہ کفارمکہ دوڑتے ہوے آئی آپ کو مارنے لگے – حضرت عباس جو کہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوے تھے بیچ میں کود پڑے اور کہا کہ یہ کیا کرتے ہو یہ قبیلہ غفار کا شخص ہے اور یہ قبیلہ شام کے راستے میں پڑتا ہے اگر شام کا راستہ بند ہو گیا تو کیا کرو گے تمہاری ضروریات وہیں سے پوری ہوتی ہیں کفار مکہ کو بھی اس بات کا خیال آیا تو انہوں نے آپ کو چھوڑ دیا


اس کے بعد اگلے دن حضرت ابوذر غفاری راضی الله تعالی عنہہ نے پھر مسجد حرام میں جا کر بلند آواز میں کلمہ توحید پڑھا اور ایک دفعہ پھر کفار مکہ نے آپ حضرت ابوذر غفاری راضی الله تعالی عنہہ کو بہت مارا پیٹھا اور اس دفعہ بھی حضرت عباس نے آپ کو پھر بچا لیا


جب میں اس واقعے کو پڑھا تو یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ اسلام نہ تو تلواروں کے زور سے پھیلا اور نہ ہی کسی کی دولت اور شہرت کی ہوس سے – بلکہ اسلام تو صرف اور صرف محبت اور سچائی کی تواضع سے ہمارے تک آیا ہے چاہے حضرت ابوذر غفاری راضی الله تعالی عنہہ ہوں  یا حضرت ابو بکر صدیق راضی الله تعالی عنہہ آپ سب کے سب سچے اور مخلص تھے آپ کو نہ تو دنیا کا لالچ تھا اور نہ ہی دنیا کی پرواہ تھی – ہم سب اپنی زندگی میں ایسے ادوار سے گزرتے ہیں جہاں اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا ہے لیکن ہمارا یقین اس راستے میں ایسی مشعل بن جاتا ہے – جو اس اندھیرے میں ایک چھوٹے سے جگنو کا کام دیتی ہے اور پھر ہم اپنے پیچھے انے اولوں ایسی روشن قندیلیں اپنے نام کے توڑ پر چھوڑ جاتے ہیں جو کہ آنے اولوں کے لئے مشعل رہ بن جاتی ہیں


آپ دنیا کے ١٠٠ امیر ترین لوگوں کی لسٹ اٹھا کر پڑھ لیں  آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ سب کے سب آنے والے وقتوں کے لئے اپنے نام کے ساتھ ایک ایسی قندیل چھوڑ جاتے ہیں جو ان کے پیچھے چلنے والوں کو بٹھکنے سے بچاتی ہے تہبی وہ بنا اٹکے بنا ٹھوکر کھاے اس رہ سے گزر جاتے ہیں آپ دنیا کے کسی خطے میں بھی چلے جائیں آپ کو وہاں ایسا کوئی نہ کوئی ضرور ملے گا جو کہ اس خطے کے لئے راشنی کا کام دے رہا ہو گا


لیکن ہم اپنے ملک پاکستان میں ہمیشہ باہر کے لوگوں کو اپنے لیے مثال سمجھتے ہیں جبکہ خود ہمارے اپنے ہمارے نظروں سے اوجھل رہتے ہیں ہمارے ملکے پاکستان کے لئے دوسرے ممالک کا رویہ صرف اور صرف تعصب اور نفرت تک ہی محدود ہے لیکں ٦٧ سال سے یہ ملک قائم و دائم ہیں تو آخر کیوں – کیونکہ اس میں ایسی بہت سے قندیکین موجود ہیں جو کے ہمارے انے والی نسلوں کے لئے مشعل رہ بنی ہوئی ہیں – ان میں سے سب سے  پہلا نام ہے - عبدالستارایدھی


 عبدالستارایدھی ١٩٢٨ میں انڈیا میں پیدا ہوئے ان کے والد بمبئی میں اپنا کاروبار کیا کرتے تھے لیکن ان کا خود کہنا تھا کہ وہ گجراتی لکھنا اور پڑھنا جانتے ہیں لیکن اس کے علاوہ ان کو کچھ اور لکھنا اور پڑھنا نہیں آتا ٢٤ سال کی عمر میں وہ پاکستان کی آزادی کے ٦ روز بعد وہ پاکستان  کراچی آ گے – اس وقت کراچی بھی ایک چھوٹا سا شہر تھا اور دوسرے علاقوں کے طرح اس میں بہت سے مہاجر آ کر اس میں آباد ہو گئے تھے اس وقت کراچی میں ١٥٠٠٠٠ مہاجرین آ کر آباد ہو گئے تھے اس وقت کراچی میں ریڈ کراس اور سینٹ جونس کیمپ رفاہی کام سر انجام دے رہے تھے اسی وقت کراچی میں فلو کی وبا فیل گئی ایدھی صاحب جو اس وقت ایک میڈیکل سٹور چلا رہی تھے انہوں نے فورا ہی بیشتر میڈیکل کالج کے کچھ ڈاکٹروں کو اکٹھا کیا اور ان کو مریضوں کو دیکھنے کا کہا حالانکہ یہ صرف ایک چھوٹا سا کام تھا لیکن اس سے یہ کام ضرور ہوا کہ ان لوگوں میں یہ سوچ پیدا ہو گئی کی اگر انسان میں کچھ دم ہو اور کچھ کرنے کی لگن ہو تو کوئی اس کا راستہ نہیں روک سکتا محض ٢٤ سال عمر میں انہوں نے اپنے دکن کو اتنا بڑھا لیا کہ اب پورے ملک میں ان کے ٤٠٠ سے زیادہ سنٹر کام کر رہے ہیں پڑھے لکھے نہ ہونے کے باوجود ایدھی صاحب نے بہت سے ملکوں کی سیر کی اور ان کے لوگوں میں رفاہی کاموں کی کام کرنے کے جذبہ اور ہمت کو پرکھا


سادگی پسند اس انسان کی شریک حیات بھی نہ صرف ان کی ہم خیال ہیں بلکہ ایدھی فانڈیشن میں لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے بہت کوشش کر رہی ہیں وہ بھی ایسے ملک میں جہاں بھوک اور مہنگائی رونے رو رہی ہیں ایدھی صاحب کی خواہش ہے کہ ان کے بعد یہ کام ان کے بچے اور شریک حیات سنھبالیں


اگر آپ ان کے خیالات پرہیں تو پ کو محسوس ہو گا زندھ میں چھوٹی سے کرن آپ کے لئے کتنی اہمیت رکھتی ہے



About the author

DarkSparrow

Well..... Leave it ....

Subscribe 0
160