نسوانیت فخر ہے

Posted on at


نسوانیت فخر ہے

عورت ہونا بڑی سعادت ہے، اس سعادت کو زحمت میں بدلنے والی عورت کی با یولوجی نہیں بلکہ معاشرے کی سا ئیکالوجی ہے۔ جدید سائنس نے عورت کو مقابلے کی اس بے معنی، بے مقصد بلکہ مضر دوڑ سے نکال دیا ہے کہ وہ ہر طرح مرد کے ہم پلہ ہے یہ نعرے بازی اب ختم ہو چکی ہے کیونکہ عورت مرد کی ہم پلہ نہیں اور وجہ صاف ظاہر ہے کہ مرد بھی عورت کے ہم پلہ نہیں ہے یہ دونوں مختلف اور متنوع ہیں جیسے جسم میں آنکھ اور پاؤں دوںوں مختلف اعضاء ہیں لیکن دونوں ہی جسم کا لازمہ ہیں۔ ان دونوں میں توازن ہوتا ہے اور یہ دونوں مل کر کام کرتے ہیں تو قدم درست سمت میں اٹھتا ہے اور آنکھیں منزل تلاش کر لیتی ہیں بات سادہ سی ہے لیکن اسے نہ جانے کن وجوہات کی بنا پر پیچیدہ بنا دیا گیا ہے۔ شاید دونوں اضاف میں مقابلہ آرائی اور مسابقت کسی خاص ،،طبقے،، کے مفاد میں ہو ورنہ مقابلہ آرائی کا نہ کوئی جواز نہ مقصد اور نہ فائدہ بلکہ صرف نقصان ہی نقصان ہے، آخر یہ سوچاہی کیوں جائے کہ کون برتر ہے اور کون کمتر۔ اس سوچ سے کونسی حیاتیاتی یا جبلی حقیقت تبدیل ہوگی؟ اصل میں تبدیلی تو سوچ اور سماج میں لانے کی ضرورت ہے جس نے عورت کو ،،مظلومیت کی چادر،، میں لپیٹا ہوا ہے۔ ہمارا دین تو اسے کمتر یا مظلوم نہیں بناتا، یہ تو ہمارا خود ساختہ ،،رواج،، ہے جس نے اسے مجبور کر رکھا ہے۔

میں جب کسی گھر میں بیٹیوں کے ہونے پر افسردگی پاتا ہوں تو مجھے علم ہوتا ہے کہ اس افسردگی کا تعلق معاشرے اور سماج کی صورتحال سے ہے کیونکہ ماں باپ اسی سوسائٹی کا حصہ ہوتے ہیں پھر بھی یہ حقیقت ہے کہ پڑھے لکھے اور مہذب گھرانوں میں بیٹیاں اب بوجھ نہیں بنتیں۔ وہ زمانے گئے جب بیٹے کو سہارا سمجھا جاتا تھا آج اگر پوری توجہ ، وسائل ، محنت اور محبت بیٹی کو ملے جس کا حقدار بیٹا قرار دیا جاتا ہے تو یقیناً وہ بیٹے سے کم ثابت نہیں ہوتی بلکہ اپنی مخصوص کمیسٹری اور ذہنی ساخت کی وجہ سے زیادہ حساس، خیر خواہ اور انسان دوست ، پر امن اور قناعت پسند ہوتی ہے۔

متوسط طبقہ میں تو اللہ کا شکر ہے عورت گھر کی مالکن ہوتی ہے بلکہ مرد کماتے ہی اس کے لئے ہیں۔ اس پر وہ بوجھ اور مسائل نہیں ہوتے جن کا شکار کم پڑھے لکھے ، نچلے اور اکثر پسماندہ طبقہ کی عورتیں ہوتی ہیں لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ ہماری دیہاتی عورت آج بھی قابل فخر ہے اس کے بغیر زرعی معیشیت چل ہی نہیں سکتی۔ وہ اپنے جبلی فرائض کے ساتھ کھیت کھلیان میں ان تھک محنت کرتی ہے اور اس کی کارکردگی اپنے ہم پلہ مرد سے کہیں بہتر ہوتی ہے۔ فرق صرف تعلیم ، اپنے پیرا میٹرز حدود و قیود کو سمجھنے کا ہے۔ یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ تعلیم یافتہ گھرانوں مین عورت مظالم کا شکار نہیں ہوتی کیونکہ وہاں مرد بھی مظالم کا شکار نہیں۔

مصیبت وہاں آتی ہے جہاں مرد گھر سے باہر ٹھوکریں کھا کر ظلم سہہ کر گھر میں آتا ہے اور اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا انتقام لا شعوری طور پر عورت سے لینے لگتا ہے۔ مظلوم دونوں ہی ہوتے ہیں اور ظالم دراصل وہ نظام ہوتا ہے جو کمزور کو جینے کا حق نہیں دیتا۔

دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا خطہ ہو جہاں کی عورت ہمارے خطے کی عورت سے بہتر ہو۔ ہماری عورت اعلیٰ تعلیم اور دولت حاصل کرنے کے بعد بھی شرافت اور مشرقیت کا دامن نہیں چھوڑتی اسے دنیا کہ سارے کاموں کے ساتھ اپنے بنیادی فرائض یعنی ماں اور بیوی ہونا ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ لیکن ابھی ہمیں اپنی عورت کو اس کا مقام نہیں بلکہ احترام دلانے کے لئے عورتوں سے زیادہ مردوں میں شعور پیدا کرنا ہوگا کیونکہ مرد ہمارے نظام پر حاوی ہیں۔

عدم توازن اور طبقات کی انتہاوں میں بنے ہوئے معاشرے کسی کے لئے خیر کا سبب نہیں ہوا کرتے اور جو جتنا کمزور ہوتا ہے اتنا ہی مظلوم بھی ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت زیادہ مظلوم ہے اس کا علاج صرف بیداری اور شعور کی تعلیم ہے۔



About the author

muhammad-haneef-khan

I am Muhammad Haneef Khan I am Administration Officer in Pakistan Public School & College, K.T.S, Haripur.

Subscribe 0
160