عالم اسلام - حصّہ ٢

Posted on at


فلسطین پر اسرائیل کی صیہونی طاقتیں قابض ہیں. فلسطینیوں کی طرف سے شدید مزاحمت ہونے کے باوجود اسرائیل کے پاس جدید ہتھیار اور ٹیکنالوجی  کی وجہ سے ان کا پلڑا بھاری ہے. اور کفر کی یہ طاقتیں ان ہتھیاروں کو بنانے اور معصوم مسلمان شہریوں پر برسانے سے کبھی نہیں چوکتیں.یہودیوں میں مذہبی انتہا پسندی اس حد راسخ ہے کے مسلمانوں کے مذھبی مقامات کو ڈھانے سے دریغ نہیں کیا گیا.


           


نا صرف یہ بلکہ مسجد اقصیٰ (بیت المقدس ) پر ان کے ناپاک قدم براجمان ہیں.اقوام متحدہ اور اپنے آپ کو امن کا علمبردار کہنے والے دوسرے ممالک نے کبھی بھی مسلمانوں پر ہونے والی جارحیت کے خلاف کوئی ایکشن یا کوششیں نہیں دکھائیں. معصوم بچوں کا بےدریغ قتل عام اسرائیلی بربریت کا واضح ثبوت ہے.  


                  


اس کے علاوہ اگر مسلمانوں کے مابین کوئی معاملات جنگ کی صورت  کا رخ اختیار کر لیں تو امریکہ اور اس کے ساتھی ایک فریق کو تباہ کرنے میں پورا پورا ساتھ دیتے ہیں کیونکہ وہ یہی تو چاہتے ہیں کہ مسلمان یا  تو کافروں کے ذریعے یا خود ھی نیست و نابود ہو جایئں. اور جن ملکوں یا علاقوں میں کفار مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار ہیں اور مسلمان مر رہے ہیں وہاں یہ خاموش تماشائی بن کر دیکھتے ہیں. ہاں مگر پاکستان اور مجاہدین کے ہاتھوں روس کے ٹکڑے ٹکڑے کروانے میں امریکہ نے مجاہدین کا پورا پورا ساتھ دیا کیوں کہ اس میں بھی امریکہ کو اپنا مفاد عزیز تھا.روس مسلسل فتوحات پر فتوحات حاصل کر رہا تھا. اور رکنے کی بجاۓ پوری دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتا تھا. اور امریکہ کو اپنی طاقت کمزور ہوتی نظر آرہی تھی تو اس نے مسلمانوں کو جہاد کے نام پر کھڑا کیا گو کہ دنیا کہ سامنے امریکہ نے مجاہدین کو اپنے مقاصد کے لئے استمعال کیا ہے اور مجاہدین امریکہ کہ ہاتھوں کھلونا بنے. اور امریکہ کے مفاد کی جنگ لڑی. لیکن حقیقتا اس جنگ نے مسلمانوں میں نئی  روح پھونک دی اور انہیں بھولا بسرا سبق(جہاد) جو مسلمان بھول بیٹھے تھے. الله نے امریکہ کے ہاتھوں یاد کروا دیا.پوری دنیا کے مسلمان اٹھ کھڑے ہوۓ اور جہاں جہاں مسلمان بس رہے ہیں ان کے لئے بھی روشنی کی یہ کرن موجود ہے. جو انہیں اس بےبس زندگی سے نکال سکتی ہے. یہ بھی الله کی تدبیر تھی.


              


سوڈان، لیبیا. برما میں مسلمانوں کی حالت زار بہت دیر میں دنیا کے سامنے آئی. جب کتنا ھی قتل عام کیا جا چکا تھا. ابھی تک میانمار میں پرتشدد واقعات جاری و ساری ہیں. سوڈان کے بارے میں تو میڈیا پر کوئی آواز بھی نہیں اٹھی. انٹرنیٹ پر تھوڑا معلوم ہوا کہ کس طرح سوڈان میں مسلمانوں کا قتل کیا گیا. گزشتہ  سال کی رپورٹ کے مطابق میانمار میں مسلم کش فسادات اپنے عروج پر ہیں. کئی  افراد کی ہلاکت ہونے کہ ساتھ ساتھ مساجد کو بھی شہید کیا گیا. اور علاقہ میں بھی کرفیو نافذ رہا. جس طرح سے کفار نے مسلمانوں کو قتل کیا کے انہیں قطار میں کھڑا کیا جاتا اور باری باری سر قلم کیے جاتے.اور ہر شخص اپنی باری کا انتظار کرتا وہ  اتنے مجبور بےبس اور بزدل تھے کے کسی کے اندر مزاحمت تو کیا اپنی جگہ سے ہلنے کی بھی ہمت نہ ہوتی. حالانکہ اسے معلوم ہوتا کہ اب میرا نمبر مرنے کا ہے.


یہ کیسی زندگی ہے مسلمان کی کہ چینخنے کی بھی اجازت نہیں. ان پر بھوک اور بغیر کپڑوں کے رہنا مسلط کر دیا گیا. ذہنی طور اپر اتنا شکست خوردہ کر دیا گیا کہ سالوں سے غلامی میں رہتے رہتے وہ اپنے آپ کو غلام سمجھتے ہیں. پھر بھی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ مسلمان بے انتہا شدت پسند قوم ہے اور انہیں مغربی دنیا سے ہاتھ ملا کر چلنا چاہیے کفار کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا چاہیے.



ایک سوچ تو یہ ہے کہ ایسے علاقوں میں جہاں مسلمان بلکل پستیوں کا شکار ہیں، برما،سوڈان، بوسنیا وغیرہ وہاں تو ان کو  اس قابل بھی نہیں چھوڑا گیا کہ وو کوئی حکمت عملی بھی اختیار کر پائیں. حالا نکہ وو نہتے مسلمان تھے اس قابل بھی نہ تھے کہ اغیار کے لئے خطرہ بن سکتے لیکن انکا جرم مسلمان ہونا تو خیر تھا ھی ......


دوسری طرف ایسے ممالک جو ترقی کی راہ پر گامزن ہیں. دنیا کے نقشہ پر اپنا ایک مقام اور اسلامی تشخص رکھتے ہیں. گو کہ ان کے حکمران بھی سوشلزم کا شکار ہیں لیکن بہرحال عوام کو مکمل آزادی حاصل ہے. بنگلہ دیش، مصر، شام، ترکی، پاکستان وغیرہ. لیکن ان ممالک میں بھی مسلمانوں کی اپنی حماقتوں کی وجہ سے کفار کو سازشیں کرنے کا موقع فراہم ہوا کہ وہ مسلمانوں کو مسلمانوں کے ذرئعے  ھی مروائیں. اور ان حالات کے ذمہ دار وہ مسلمان بھی ہیں جنہوں نے اپنے اسلامی تشخص سے منہ موڑا اور دین سے دوری اختیار کی اور جنہوں نے دین اسلام کو ھی غلط  رنگ سے سمجھا. اور اسے شدت پسند مذهب بنا ڈالا. مسلمان دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے. ایک وہ جو اغیاروں کی تہذیب سے متاثر نظر آۓاور انہی کے رنگوں میں رنگنے لگے. اور دوسرے وہ جو مذہب میں انتہا پسندی کے اس حد تک ہمنوا ہو گئے کے سب کو کافر گرداننے لگے. نتیجتا ملکوں کے اندر ھی خانہ جنگی والی صورت حال نے جنم لیا. کفار کو موقع ملا اسلامی ملکوں کے جھگڑے میں پڑنے کا یعنی دوسری صورت میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کا. کہیں تو سیکولر حکومتوں کا ساتھ دے کر علماءکرام پر بم برسا کر اپنے مقاصد حاصل کئے جا رہے ہیں. اور کہیں شدت پسند عناصر کو بغاوت پر اکسا کر انہیں خفیہ اسلحہ پہنچا کر اور جہاد کے نام پر انہیں اپنی ھی حکومتوں سے لڑوا رہے ہیں. نتیجتا دونوں صورتوں میں مسلمان ھی تہہ تیغ ہو رہے ہیں. 


ان سارے حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حالات و واقعات کا صیحح تجزیہ کیا جائے اور مسلمانوں کے زوال کی صیحح جڑ معلوم کی جائے اور کہاں تلوار کی ضرورت ہے اور کہاں دعوت کی اسکا شعور ہونا لازمی ہے. الله تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے.


اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑ جاؤ (القرآن)


اسلام اعتدال پسند دین ہے اور ہر معاملے میں اعتدال کا درس دیتا ہے.نا تو مسلمانوں کو بلکل غیروں کی تہذیب کے آگے سر تسلیم خم کر دینا چاہئے کہ کیونکہ جو وہ طاقتور ہے تو اسکی مانتے جاؤ اور اس کے پیچھے چلتے جاؤ. اور نا ھی انتہاپسندی کو اختیار کرنا ہے کہ بلکل بھی حکمت کے طور پر ان کی زبان بھی نہ پڑھو  ان سے معاہدے  نہ  کئے جایئں. انکی تعلیم پر پابندی لگائی جائے انکی ٹیکنالوجی سے سے فائدہ نہ اٹھایا جائے اور حکمرانوں پر جو غیر مسلموں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں کفر کے فتوے لگاۓ جایئں. بلکہ میانہ روی اختیار کی جائے کہ حکمت کے طور پر کچھ لچک ہمیں اپنے انداز میں پیدا کرنی چاہیے کھیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان ساری دنیا سے کٹ کر رہ جایئں.


اپنا اسلامی تشخص برقرار رکھتے ہوۓ اپنی تہذیب کو بلند رکھتے ہوۓ ترقی کے میدان میں آگے نکلنا ہے. علم کے میدان میں باقی ممالک کو پیچھے چھوڑنا ہے. اس لئے تعلیم کو عام کرنا ہو گا. ٹیکنالوجی کو پھیلانا ہو گا. چاہے وہ ہمیں کہیں سے بھی حاصل ہو.


           


 ہمیں اپنے رویوں کو بدلنا ہو گا. اپس میں دعوت  و دین کا کام کرنا ہو گا. فرقہ واریت  سے نکل کر اپنی سوچ کو وسیح کرنا ہو گا. تو اس کھانا جنگی والی صورت حال کو شکست دے پائیں گے. اور جہاں کافر مسلمانوں پر جنگ مسلط کئے ہوۓ ہیں اور ظلم کو رواں رکھا ہوا ہے کچھ شک نہیں کہ وہاں مسلمانوں پر جہاد فرض ہے. اپنی بقا کی جنگ لڑنا ہر مسلمان کا حق ہے. چاہے وہ کشمیر ہو، برما فلسطین ہو غیروں کے تسلط سے نکلنے کی کوشش جاری رکھنا ہو گی. اور اب مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے والی طاقتیں خود اپنے قدموں پر ڈگمگا رہی ہیں. مسلمانوں کی سطوت کا دور پھر لوٹ کر آے  گا. انشاءاللہ                


                



About the author

RoshanSitara

Its my hobby

Subscribe 0
160