ہم پڑھتے ہیں یہ جاننے کے لئے کہ ہم اکیلے نہیں ہیں

Posted on at


کل شام کی بات ہے میں ہری پور بازار کی سڑکوں پر لوگوں کی بھیڑ کے اندر اپنا راستہ تلاش کر رہا تھا - موسم گرما کے وسط میں برسات کی ہلکی بارش کے ساتھ تیز ہوا میرے چہرے سے ٹکرا رہی تھی- ہری پور شہر کی پرہجوم سڑکوں پر چلنے کے لئے اس سے بہتر موسم نہیں مل سکتا ہے


کیا آپ کتابیں خریدنا چاہتے ہیں؟ - - -  میری نظر آواز کی سمت ایک سات یا آٹھ سال کی عمر کے بچے پر پڑی جو ہاتھ میں کتابیں اٹھاۓ میری جانب دیکھ رہا تھا


کیا؟ - - - میں بھیڑ میں اسے اچھی طرح نہیں سن سکا.


کیا آپ کتابیں خریدنا چاہتے ہیں؟ - - -  بچے نے تھوڑا اونچا بولتے ہوۓ کہا


میں نے پھر سے سوال کیا، تمہارے پاس کس قسم کی کتابیں ہیں؟ 


حدیث کی اور اسلامی کتب - - - بچے نے جواب دیا


مجھے نہیں چاہیے، میں معافی چاہتا ہوں اور میں جواب دے کر چل دیا


وہ تھوڑی دیر اصرار کرتا رہا لیکن پھر تھک کر چلا گیا- لیکن میں سوچ میں پڑ گیا ایک ایسا ملک جہاں اکثر لوگوں کو کتابیں پڑھنے کا شوق نہیں ہے وہاں کتابیں فروخت کرنا کتنا منافع بخش ہو گا؟
اس بچے کو دیکھ کر مجھے اپنے وہ دن یاد آگئے جب بچپن میں دی ہنگر گیمز سیریز پڑھنے کے لئے میں بہت زیادہ پرجوش تھا لیکن اپنی پوری کوشسش کے باوجود ہری پور میں کتابوں کی دکانوں پر میں اپنی پسندیدہ سیریز نہ ڈھونڈ سکا- مجھے افسانے اور ناول پڑھنے کا شوق تھا جو کہ ہری پور میں نہیں دستیاب تھے اور جو کتابیں موجود تھیں وہ سب غیر افسانوی تھیں- کبھی کبھی پاکستان جیسے ملک میں اپنی پسندیدہ کتاب کا ڈھونڈنا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور یہ چیز اکثر کتابیں پڑھنے والے لوگوں کی حوصلہ شکنی کرتی ہے



کتابیں پڑھنا بیشک ایک کمیونٹی کی صلاحیتوں میں نکھار اور ان کی مہارتوں کو زرخیز بنانے میں مدد دیتی ہے- ایسے لوگ جو پڑھتے لکھتے ہیں وہ ایک وسیع تر اور روشن نقطہ نظر رکھتے ہیں- نتیجے کے طور پر، وہ فعال شہری بنتے ہیں اور ایسے لوگ مسائل کو عقلمندی کے ساتھ حل کر سکتے ہیں- پاکستان کو ایسے فعال اور ذمہ دار شہریوں کی سخت ضرورت ہے جو پڑھنے لکھنے میں دلچسبی رکھتے ہوں اور ساتھ ساتھ سماجی سرگرمیوں میں بھی مشغول ہوں تاکہ وہ دیگر پاکستانی نوجوانوں میں بھی اس بارے میں شعور اجاگر کر سکیں- پڑھنے لکھنے کا شوق رکھنے والے افراد کو دسرے لوگوں کی بھی اس سلسلے میں حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، تاکہ ماضی میں کی گئی غلطیوں کو دوبارہ کرنے سے بچا جا سکے



علی معین نوازش کا نام ان پاکستانیوں کے لئے نیا نہیں جو پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں- علی نے کیمبرج او لیول کے سابقہ تمام ریکارڈوں کو توڑتے ہوۓ 23 مضامین میں اول پوزیشن حاصل کی- تعلیمی خدمات پر حکومت پاکستان سے پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں- علی معین نوازش سیٹ اپ پاکستان تنظیم کے بانی ہیں، اس تنظیم کا مقصد دہی علاقوں میں تعلیم کو فروغ دینا ہے، ایسے افراد جو پڑھنا چاہتے ہیں تنظیم کی جانب سے انہیں مفت کتب فراہم کی جاتی ہیں- ایسی ہی ایک اور مثال سید فہد علی کی ہے جنہوں نے آغاز اسکول کی بنیاد رکھی- آغاز اسکول تنظیم کراچی میں غریب اور کچی آبادی والے علاقوں میں بچوں کو مفت کتب اور تعلیم فراہم کرتی ہے- ایسے نوجوان عظیم مثالیں ہیں دوسروں کے لئے کہ وہ بھی معاشرے کو پڑھنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں



ایک بہتر پاکستان کے لئے پاکستان کی مدد کرنے کے بہت سے راستے ہیں- لیکن مجھے یقین ہے پاکستانی ثقافت کو مضبوط بنانے میں مؤثر طریقوں میں سے ایک کتابوں کا مطالعہ کرنے کی عادت بھی ہے اور یقیناً پاکستانیوں کو ایسا ہی کرنا چاہیے


 



About the author

160