زندگی گزارنے کے تقابلی جائزے

Posted on at


زندگی گزارنے کے تقابلی جائزے


زندگی کی حقیقی خوشیاں کا مال و دولت ، عیش و عشرت ، محل ، جاگیرے سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔ کہتے ہیں گوتم بدھ نے زندگی کی حقیقی خوشیوں کو پانے کا راز زندگی کی خواہشات کو ترک کر دینے میں بتایا۔ اس مقصد کو پا لینے کی غرض سے اس نے اپنی پر آسائش زندگی کو چھوڑ کر جنگلوں میں پنا لے لی اور بڑے بڑے درختوں کی اوٹ میں بیٹھ کر زندگی گھاس پتے کھا کر گزای۔ اس کے نزدیک زندگی کی سچی خوشیاں خواہشات زندگی  کو ترک کرنے میں ہیں۔



اسلام   زندگی گزارنے کا درس خواہشات کریکسر ترک کرنے میں نہیں بلکہ زندگی کو ضوابط اور اصولوں میں ڈاھلنے کا نام ہے اسلام میانہ روی کا سلیقہ بتاتا ہے اتنا کھاؤ پیو جو زندگی کی سانس کو قائم رکھ سکے اتنا مال و دولت جمع کرو جو دوران زندگی ضرویات زندگی کی تکمیل کر سکے۔ حرص لالچ زندگی کو تباہ کر دیتے ہیں۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا مجھے تم میں سب سے زیادہ ڈر دو طرح کے لوگوں پر ہے ایک وہ جو امیدیں لمبی باندھنے لگیں اور دوسرے وہ جو خواہشات کی پیروی کرنے لگیں۔


آپﷺ نے زندگی کی خواہشات کو محدود رکھنے کو سبق دیا ہے جو زندگی کا حقیقی دلی سکون بھی ہے، حسد ، کینہ اور خواہشات دلی سکون کے حصول کے لئے رکاوٹ ہیں۔ انسان اگر خواہشات کی حصول کے لئےساری زندگی وقف کردیں تو بھی کم ہے۔ بچپن کی چھوٹی چھوٹی خواہشات سے لیکر زندگی کو آسائشوں کی تکمیل کے لئے  زندگی بسر کر دینا ہر انسان کی فطرت ہے ، خواہش کی تکمیل کے لئے عقلی علم کی بنیاد رکھی گئی اور انسان اپنی زندگی ہمہ جہت اپنے علم کو اسی بنیاد پر وسیع کر رہا ہے لیکن خدا نے انسان کو ہر قسم کے ماحول میں سمٹ جانے کا وجود بخشا، اس لئے انسان جس کسی ماحول کو اپنے اوپر ڈھال دیں اسی رنگ میں ہو جاتا ہے گوتم بدھ نے اپنے آپ کو خالص فطرتاً قدرتی ماحول میں ڈھال دیا تھا اس نے شدید موسمی سختیاں بھی جھیلی ہو گی اور درندوں کے عدم تحفط کا احساس بھی اس کے دل میں آیا ہو گا پھر بھی اس کے باوجود صحت مند بھی رہا اور زندگی کی بازی بھی طبی طریقے سے ہاری نہ کہ کسی حادثاتی موت سے۔



تاریخ کے اوراق گردانی سے پتہ چلتا ہے بہادرشاہ ظفر کے اختیام حکومت کے وقت شاہی خاندان نگے پاؤں شاہی قلعے سے فرار ہوا اس کی وجہ یہ تھی شاہی خاندان کے افراد اپنے جوتوں کے تسمے بھی نوکروں سے باندواتے تھے۔   شاہی ماحول یا آسائشی ماحول نے ان کے عادات کو اور جسم و کاٹ کو نرم کر دیا تھا۔  گویا انسان کی خواہشات اپنے لئے بہتر سے بہتر سہولیات زندگی کے حصول کے لئے ہے  لیکن یہ خواہشات برے وقت آنے پرعذاب بن جاتی ہیں۔  اس لئے اسلام نے زندگی گزارنے کے لئے میانہ روی اخیتار کرنے کا درس دیا ہے۔



انسان کو وہی ملتا ہے جو اس کے مقدر میں لکھ چکا ہے تو پھر زندگی کا سکون خواہشات کی تکمیل  میں تلاش کرنا کہاں کی عقل مندی ہے۔ اسلام کی اعلیٰ اخلاقیات کے درس پر عمل پیرا ہونا ہی زندگی میں حقیقی سکون ہے حسد نہ کرنا، غیبت سے دور رہنا جو معاشرے میں انسانی تعلقات خراب کردیتی ہے اگر براہ راست ہتھہ پائی نہ بھی ہو پھر بھی آپس میں سرد جنگ شروع ہو جاتی ہے  خوانشات کے پیچھے نہ بھاگنا، اگر انسان ان لازوال اصولوں کو اپنا لے تو زندگی پرسکون گرز جائے گی۔ زندگی میں پرسکون رہنے کو ایک اصول مثبت سوچ بھی ہے ۔ دوسروں کے لئے غلط نیت رکھنا غلط انداز فکر سکون کو برباد کردیتی ہے۔ اللہ پر توکل کرنے کا سلیقہ آہ جائے ، کیونکہ اگر سب کو ہی برابری کی بنا پر عہدے اور دولت مل جائے تو معاشرہ غیر متوازن ہو جاتا ہے اس لئے اللہ نے فرما دیا ہے کہ تم  میں بعضوں کو بعض پر زیادہ رزق دے دیا گیا۔ لیکن اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے انسان کو شاکر ہونا چاہیے ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ ناشکری پرشانی کا سبب بنتی ہے اور پرشانی بے سکونی کا۔ لہذا دور حاضر کی مادیت پرستی میں خواہشات کو درمیانے درجے پر رکھ کر سکون قلب کا حصول ممکن بنایا جاسکتا ہے۔


ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ========================================================================



160