آئی ڈی پیز کی مشکلات اور حقائق کا اعتراف۔۔

Posted on at


آئی ڈی پیز کی مشکلات اور حقائق کا اعتراف۔۔


سیفران کے وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے آئی ڈی پیز کی مدد کے حوالے سے بات چیت میں کھلے دل سے بعض ارضی حقائق کا اعتراف کیا ہے۔ 



 


وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ "آخری مردم شماری کے وقت 1998ء میں شمالی وزیرستان کی آبادی 4 لاکھ تھی اور متاثرین کی رجسٹریشن کے وقت یہ آٹھ لاکھ ہوگئی"۔ ایک شخص کا راشن دیا جائے تو اس کے بعد اسی کا دوسرا بھائی لینے آجاتا ہے، سیفران کے وشیر نے کہا کہ موجودہ حالات میں متاثرین کی ریلیف کے لئے 5 یا 6 نہیں 30 ارب روپے کی ضرورت ہے، ان کا کہنا ہے کہ اب تک 60 ہزار سے ذائد خاندانوں کو راشن فراہم کر دیا ہے۔



وفاقی وزیر نے بتایا کہ ریلیف کے حوالے سے اب ایک ٹھوس منصوبہ بندی کے لئے صلاح مشورے کی ضرورت ہے عین اسی روز جب وفاقی وزیر بنوں میں متاثرین کے کیمپوں اور رجسٹریشن مراکز کا دورہ کر رہے تھے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے آئی ڈی پیز کی امداد کے لئے ایک ارب مزید جاری کرنے کا حکم دیا۔ اور وزیر اعظم نے متعلقہ محکموں کو متاثرین کی بحالی کا عمل تیز کرنے اور نقل مکانی کرنے والوں کو چھت کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کی۔



وفاقی وزیر سیفران نے میڈیا سے اپنی بات چیت میں امدادی کاروائیوں کے لئے ٹھوس حکمت عملی کی ضرورت کا اقرار کیا ہے ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں اول روز سے خدشہ یہ ہی تھا کہ ہماری سول انتظامیہ اتنی بڑی ذمہ داری احسن طور پر سر انجام نہیں دے پائے گی، بنوں کے کیمپوں میں احتجاج کے بعد حیات آباد پشاور میں رجسٹریشن کے حوالے سے مشکلات بھی سامنے آئی ہیں، دوسری جانب گورنر خیبر پختنخواہ سردار مہتاب احمد خان نے متاثرین میں غیر معیاری اجناس کی تقسیم کا نوٹس بھی لیا ہے۔ متاثرین کے نمائندہ وفد نے گورنر خیبر پختنخوا کو اپنی مشکلات سے آگاہ بھی کیا ہے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ قیامت خیز گرمی میں گھر کی چھت سے محروم ہونے والوں کو اپنے گھر جیسی سہولیات کی فراہم کرنا کبھی بھی ممکن نہیں ہو سکتا۔ 



تاہم دستیاب وسائل کا منظم استعمال ریلیف کے گراف کو ضرور بلند کرتا ہے۔


آج مرکز کے ساتھ خیبر پختنخوا حکومت بھی متاثرین کو سہولیات کی فراہمی میں پوری طرح کوشاں پے، وزیر اعلٰی پرویز خٹک خود سارے امور کی نگرانی کر رہے ہیں کیا ہی بہتر ہو کہ سیفران کے وفاقی وزیر جس حکومت عملی کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں اس میں صوبے اور مرکز کے ذمہ داروں پر مشتمل با اختیارباڈڈی بھی تشکیل دی جائےتاکہ انتظامیہ کے رابطے کا فقدان کسی بھی مرحلے پر ریلیف سرگرمیوں کو متاثر نہ کرے۔



 


سارے عمل مین اس بات کا بھی خیال کیا جائے کہ اگر ریلیف کا سارا کام فوج کے حوالے کر دیا جائے تو مثبت نتائج یقینی ہونگے۔ فوج کا اپنا نظم و نسق اور کام کرنے کا انداز مشکل کی ہر گھڑی میں قوم کے لئے کار آمد ہی رہا ہے



اس کے ساتھ متاثرین کو درپیش مشکلات کے تناظر میں اپنے اداروں کی کارکردگی سے متعلق سامنے آنے والی خامیوں کو دور کرنا بھی ضروری ہے۔



About the author

qamar-shahzad

my name is qamar shahzad, and i m blogger at filamannax

Subscribe 0
160