کیا غزہ کے لئے بھی ملالہ کو مورد الزام ٹھہرایا جائےگا؟

Posted on at



فرض کریں: پاکستان دہشت گردی کے خلاف حالت جنگ میں ہے. سوات اب مولانا فضل اللہ (جو اب تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ ہے) کے کنٹرول میں ہے- ریڈیو ٹیلی ویژن پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، اسکولوں کو بند کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے اور ایک وحشیانہ طالبان کا خود ساختہ شرعی قانون نافذ کر دیا گیا ہے


اس سب میں ایک 12 سالہ لڑکی اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالتی ہے اور دنیا کو بتاتی ہے اس پر اور اس جیسی لڑکیوں پر سوات میں کیا گزر رہی ہے


اب پچھلے دو سالوں کا تیزی سے جائزہ لیتے ہیں: بی بی سی پر بلاگ اور اور لڑکیوں کی تعلیم کے مقصد کے لئے ملالہ کی سرگرمیوں کو دیکھ کر دہشت گردی میں ملوث افراد بھڑک اٹھتے ہیں اور وہ اس کو قتل کرنے کی کوشسش کرتے ہیں- وہ تمام مشکلات کے باوجود زندہ رہتی ہے- اس کے کام اور بہادری کے لئے اسے بہت سے اعزاز اور ایوارڈ دئے جاتے ہیں، ستارہ شجاعت، نیشنل یوتھ انعام اور بچوں کے بین الاقوامی امن انعام ان میں سے صرف چند ہیں


ملالہ یوسف زئی جس کو اس سے پہلے صرف اپنے علاقے کی لڑکیوں کے لئے ایک آوازسمجھا جاتا تھا وہ اب صدر براک اوباما سے ملاقات کرتی ہے اور ڈرون حملوں کے خلاف آواز اٹھاتی ہے- وہ نائجیریمیں بوکو حرم کی جانب سے اغوا کی گئی لڑکیوں کے لئے آواز اٹھاتی ہے- وہ حصول تعلیم کے مقصد کے لئے اپنے ارادوں کو مزید پختہ کرتی ہے اور اقوام متحدہ کی اسمبلی میں امن سے محبت کرنے والی پاکستانی لڑکی کے روپ میں کھڑی نظر آتی ہے


مختصر میں، ملالہ وہ کر دکھایا جس کی ہمت مجھ میں نہیں ہے



اب اس پر غور کریں : میں نے نسبتا ایک پرامن زندگی گزاری ہے- مواقع محدود تھے لیکن میرا تعلیمی سفر کسی رکاوٹ کے بغیر کیا گیا تھا- میں نامعلوم شڑینترکاری صداقتوں کے ساتھ تمام برائی کی جڑ کے طور پر امریکہ پر الزام لگانا شروع کر دیا، ہر اسرائیلی شہری فلسطینیوں کے ایک قاتل کے طور پر اور اس بات پر میرا یقین ختم ہوتا کہ اسلام اور مسلم دنیا کو کوئی بڑا خطرہ ہے امریکہ اور یہودی لابی سے - میں بجا طور پر (زیادہ تر سوشل میڈیا کے ذریعے) غزہ کے معصوم متاثرین کی حمایت کرتا لیکن میں نے اس بات پر غور کرنے سے انکار کر دیا کہ حماس کے جنگجو فساد اور فتنہ انگیزی کے بعد میں شہری آبادی کے پیچھے کیوں چھپتے ہیں؟


میں ایک اوسط خود ساختہ پاکستانی ہوں، جس نے پہلے ملالہ کو سی آئی اے ایجنٹ قرار دیا، اس کے والد کو ایک ھوشیار اور بے غیرت کا لقب دیتے ہوۓ تنقید کا نشانہ بنایا- میں ایک وہی اوسط خود ساختہ پاکستانی ہوں جو بغض و حسد سے قبول کرتا ہے ملالہ نے غزہ کی حمایت میں بول کر ایک قبل ستائش کام کیا، لیکن میں احتجاج کروں گا کہ ایک امریکی کٹھ پتلی ہونے کی وجہ سے اس کے غزہ میں مظالم کے خلاف بولنے میں وقت لگایا- - - مختصر میں، میں نے اپنی ریاست اور دیگر مسلم ممالک کی ناکامی کا الزام ایک لڑکی پر عائد کر دیا، جبکہ میں خود فلسطین کے لئے سوشل میڈیا واریر کے طور پر کام کرتا ہوں اور اپنے ٹویٹس اور سٹیٹس اپ ڈیٹس کے ذریعے ملالہ پر تنقید کرتا ہوں


مجھے احساس ہے میں نے اس مسلے کو اٹھا کر کچھ لوگوں کی دکھتی رگ کو چھیڑ دیا ہے- کچھ لوگ شاید میرے بلاگ کو پرو ملالہ بلاگ کا نام دیں گے لیکن کیا سچ میں اس سب کے لئے ملالا کو ذمہ دار ٹھہرانا صحیح ہے؟


اسرائیل کے پاس طاقت کے غیر متناسب استعمال کا کوئی جواز نہیں ہے- حملوں میں 880 سے زائد شہری 18 دنوں میں ہلاک ہو چکے ہیں اور ہمارے دل معصوم جانوں کے ضیاع پر خون کے آنسو رو رہے ہیں- ملالہ پر تنقید کرنے کے بجاۓ شاہد یہ ہماری ترجیحات اور حکمت عملی پر دوبارہ نظر ثانی کرنے کا وقت  ہے


بتیس اقوام متحدہ کے رکن ممالک، عرب لیگ کے 18 اور 11 اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے رکن ممالک نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا (جس میں پاکستان بھی شامل ہے) باوجود اس کے کہ مئی 1948 کے بعد سے یہ ایک حقیقت ہے- جب برطانوی مینڈیٹ ختم کیا گیا اور اسرائیل کو ایک ریاست کا درجہ دے دیا گیا- اسرائیل کے عرب پڑوسیوں نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ یہ ڈپلومیسی کا وقت ہے- جب تک امن معاہدے پر جولائی 1994 ء میں دستخط نہ ہوے تھے اردن اور اسرائیل کے تعلقات انتہائی کشیدہ تھے- شام نے ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوۓ دونوں ممالک کے درمیان محدود تجارت کی حوصلہ افزائی کی ہے


ملالہ کی تاخیر سے کی گئی مخالفت کو تنقید کرنے کے بجاۓ، ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہماری حکومت نے اب تک کیا کردار ادا کیا ہے مسلے کے حل کے لئے؟



کبوتر جو بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر دیتا ہے اور امید رکھتا ہے کہ وہ غائب ہو جائے گا- اسی طرح ہم آنکھیں بند کر کے مسائل کے حل ہونے کی توقع کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ سب ٹھیک ہو جاۓ گا، یہی وجہ ہے کہ ہمارے غم اور غصہ کا شکار ایک لڑکی ہے- اس کی بجائے ہمیں ہماری حکومت سے یہ سوال کرنا چاہیے، پاکستان نے ابھی تک مسلے کے حل کے لئے کیا کردار ادا کیا ہے؟ اب وقت ا گیا ہے کہ ہم اپنے پاسپورٹ سے "یہ پاسپورٹ ماسوائے اسرائیل تمام ممالک کیلئے کارآمد ہے" کو ختم کر دیں- ایک ریاست کے طور اسرائیل کو تسلیم کریں اور اس سالوں پرانے تنازعے کا سفارت کاری کے ذریعے ایک طویل مدتی پائیدار حل تلاش کریں جو اب تک ہزاروں معصوموں کی جانیں لے چکا ہے



About the author

Maani-Annex

I am an E-gamer , i play Counter Strike Global Offence and many other online and lan games and also can write quality blogs please subscribe me and share my work.

Subscribe 0
160