کم سنی کی شادی: دہری ذمہ داری یا اذیت؟

Posted on at


کم سنی کی شادی: دہری ذمہ داری یا اذیت؟

آج کے مہذب اور تعلیم یافتہ معاشرے میں کم سنی کی شادی انتہائی فرسودہ اور بری رسم تصور ہوتی ہے اور ایسی مثالیں مہذب معاشرے میں نہیں ملتی۔ ترقی کے اس دور میں کم از کم گریجویشن یا پوسٹ گریجویشن تک کی تعلیم مکمل کرتے کرتے لڑکی اپنی عمر کے بیسویں برس میں قدم رکھ چکی ہوتی ہے اس کے بعد اگر وہ کیریئر شروع کرتی ہے تو دو سے پانچ برس کام کرنے کے بعد ذہنی طور پر کسی نئے رشتے میں خود کو ڈھالتی ہے لیکن ہمارا عمومی رویہ ایسی ہوتا ہے کہ ہر طرف سے اسے دباؤ سہنا پڑتا ہے۔ اسے عمر گزر جانے اور شادی کے ضمن میں کسی ڈراونے سے سمجھوتے کے تصور سے خوف زدہ کیا جاتا ہے دوسری طرف دیہی طبقوں میں لڑکی کی بلوغت کے پہلے برس ہی میں اسے بیاہنے کی فکر کی جاتی ہے نہ تعلیم نہ تربیت سادگی سے گھر داری کی روایتی تربیت کے بعد اس نئی بالغ لڑکی کے لئے کرنے کا کوئی بھی کام اب بچتا نہیں ہے۔ یوں تو کم سنی کی شادیوں کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں مگر ان میں سب سے اہم یہ ہیں۔

معاشی نا ہمواری اور عدم تحفظ

آپ نے اپنے ارد گرد کام کرنے والی غریب بچی کی اٹھان دیکھ کر اس کی ماں کے چہرے کی پریشانی شاید کبھی بھانپی ہوگی یا شاید اس طرف دھیان نہ گیا ہو لیکن اس سے پوچھ کر دیکھئے وہ یہی کہے گی ،، کوئی کھاتا کماتا رشتہ ملے، چاہے تنگی ہو میں اس کے ہاتھ فوراً پیلے کردوں گی،، مجھے پروین شاکر کے شعر کا مصرعہ یاد آتا ہے ،،لڑکیاں ماؤں جیسا مقدر کیوں رکھتی ہیں؟،،لیکن مجھے اس کا جواب نہیں ملتا۔

غربت کی شکار ان ماؤں کو مقدر کے پلٹا کھانے کا نہ یقین ہے نہ آس نہ ہی امید تو پھر مقدور بھر کھانا کمانا اور باقی بیٹی کی قسمت پر چھوڑ دینا ایک رسم ہی ہے جسے ہر محنت کش عورت نبھا رہی ہے کیا اسے جاہلانہ یا پسماندہ سوچ کا حامل نہیں کہا جائے گا۔ کیا یہ شہری عورت اپنی ۱۳ سالہ بچی کو بیاہتے وقت ہر فکر سے آزاد ہو سکتی ہے؟ کیا یہ اپنی بچی کو بہتر مستقبل دے رہی ہے؟ کیونکہ نہ تو وہ اسے پڑھا لکھا سکی اور نہ ہی وہ اُمور خانہ داری میں ماہر ہو سکی وہ غربت کی اسی چکی میں پس کر ایک اور کام والی بن گئی۔ اب ساری عمر وہ اپنی حیثیت کا تعین نہ کر پائے گی کہ کیا وہ پیسہ کمانے کی مشین ہے یا بچے پیدا کرنے کی۔

یہ رسم، یہ طرز زندگی بھی کسی طرح قبائلی رسموں روایتوں سے مختلف تو نہیں۔ بچوں کے حقوق پس منظر میں یا پس پیشت ڈال کر نئی نسل پر قائدانہ ذمہ داریاں اور زندگی کا بوجھ کیسے ڈالا جاسکتا ہے؟ جب صحت مند مائیں ہی نہیں تو قوم صحت مند کیسے ہوسکتی ہے۔

تیرہ سالہ بچی نہ تو کنبے کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اٹھانے کے لئے تیار ہوتی ہے ور نہ ہی ازدواجی تعلقات میں اپنا کردار بخوبی ادا کرنے کے لائق ہوتی ہے ،، ڈاکٹروں کے مطابق،، یہ کسی بھی بچی کی درمیانی سطع کی ایسی عمر  ہے جب اس کا ذہن اور جسم مختلف تبدیلیوں کے مراحل سے گزرتا ہے اگر اس کے غدود اور مناعتی نظام اور سنِ بلوغت کو پہنچنے والی اہم تبدیلیوں میں جسمانی اور جذباتی طور سے کوئی رخنہ یا پیچیدگی نہ ہو تب بھی وہ جسمانی طور پر پختہ اور صحت مند نہیں ہوتی۔ حتی کہ وہ شادی کی صورت میں نئے تعلق کے سبب ہیجان اور تشویش اور بعض صورتوں میں منفی طرز عمل اختیار کر لیتی ہے کیونکہ بنیادی طور پر وہ اس نئے رشتے کی نزاکت اور ضرورت سے ناواقف ہوتی ہے۔ قبائلی روایات اور دیہات کے نظام میں اس لڑکی کو گھر داری کے علاوہ ازدواجی حقوق پورا کرنا ضروری ہوتا ہے اور اگر وہ ماں بننے کے دور میں داخل ہوجائے تب بھی سماجی منظر نامے میں اسے کوئی رعایت نہیں ملتی۔ یہ بچیاں کم خوراک ناکافی آرام، نامکمل نیند اور دباؤ کی دوسری صورتوں میں کمزور ہڈیوں اور خون کی کمی کے ساتھ اولاد کو جنم دیتی ہیں۔ ان بچیوں کو ماں بننے کے لئے جیسی اچھی صحت درکار ہوتی ہے وہ محض تصوراتی اور کتابی ہی کہی جا سکتی ہے وہ نہیں جانتیں کہ فولاد، کیلشیم یا لحمیات اور حیاتین سے بھر پور خوراک نئی نسل آگے چلانے کے لیئے کس قدر اہمیت رکھتی ہے۔

اگر ٹین ایج بھی شادی کے لئے موزوں عمر نہیں تو چالیس کے عشرے میں داخل ہونے والی خواتین کو بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق یہ قدرت کا بنایا ہوا ایک ضابطہ ہے کہ اوائل عمری میں ہڈیاں کمزور، خون کی کمی، حیاتین کی شرح ناکافی اور جسمانی کمزوری کی وجہ سے ٹین ایج لڑکیوں کے نارمل بچے نہ ہونے کی شکایات ہوسکتی ہیں اسی طرح پختہ عمر میں بھی زچگی کا نارمل نہ رہنا، مختلف شکایات، جن میں حمل ضائع ہونا، معذور بچوں کی پیدائش اور ماں کی جان کو لاحق دیگر خطرات دیکھنے میں آتے ہیں۔ جب تک عام طبقات میں مستقبل محفوظ کرنے کا واحد حل شادی رہے گا تب تک ایسے مسائل سر اٹھاتے رہیں گے۔ لوگوں کو سمجھنا چاہئے کہ مستقبل تعلیم میں سرمایہ کاری سے محفوظ ہوتا ہے۔ بچیوں کو کیریئر گائیڈ ٹپس دی جائے، انہیں معشیت بہتر کرنے کی طرف راغب کیا جائے۔ ان کی غذا کا معیار بہتر بنایا جائے۔ خاندان آگے بڑھانے کی مہم میں شامل کرنے سے پہلے انہیں جسمانی طور پر صحت مند تو رکھا جائے۔ جسم کی ایسی پوشیدہ کمزوریوں اور تکالیف پر مکمل توجہ دی جائے جو ان کی ذہنی، جسمانی اور جذباتی بڑھوتری کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ فیصلہ کرنے کا وقت یہی ہے کہ کیا آپ کو بیمار عورتیں چاہئیں؟ یا صحتمند اور زندگی کے ہر شعبہ میں مساوی شریک کار یعنی پرفیکٹ لائف پارٹنر؟



About the author

muhammad-haneef-khan

I am Muhammad Haneef Khan I am Administration Officer in Pakistan Public School & College, K.T.S, Haripur.

Subscribe 0
160