معاشرہ اور ہم آہنگ جملہ قانون

Posted on at


معاشرہ اور ہم آہنگ جملہ قوانین


معاشرہ کیا ہے اور کیا معاشرتی اصلاحات کی بنیاد مروجہ قانون ہو سکتے ہیں دو متضاد چیزیں ہیں، معاشرتی اصلاحات کی بنیادقوانیں نہیں ہو سکتے دور آمریت میں قوانین نظریہ ضرورت کے تحت بنائے جاتے ہیں، جو   معاشرے کے افراد کی سوچ اور مفادات کے برعکس ہوتے ہیں ، یہی حال  ماضی میں بادشاہت اور مطلق العنانی حکومتوں کو بھی رہا ہے، یونان اور سپین سے مسلمانوں کی حکومتوں کے خاتمے کے بعد عیسائیت کے علاوہ ملک کے اندر مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کے مانے والوں کو جلاوطن بھی کیا گیا اورزندہ جالایا بھی گیا۔ ان مثالوں سے ثابت ہے معاشرتی اصلاح کا انحصار قوانین پر نہیں ہوتا۔  



سماجی علوم  سے پتہ چلتا ہے معاشرہ اپنی جگہ ایک تہذیبی وحدت ہوتا ہے اس میں کچھ عقائد ہو گے کچھ نظریات ہو گے کچھ اخلاقی رویے اور روایات ہو گی ان سب چیزوں سے مل کر ایک معاشرہ بنتا ہے، ملک میں جب بھی کوئی قانون بنتا ہے وہ  معاشرے کے مطالعے  اور مروجہ اخلاقی اقدار پر مبنی   ہونا چاہیے، ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ معاشرہ قبائلی دور کا ہو اور قوانیں ایسے ہوں جو اس وقت کی منظم  اور ترقی یافتہ ریاست اپنے اوپر نافذ کر سکتی ہے انسانی تمدن میں مختلف ادوار رہے ہیں جن کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ہر دور میں قانون کی کوئی نہ کوئی صورت نظر آئے گی قدیم ترین زمانے سے قوانین بنائے جاتے رہے ہیں لیکن یہ قوانین معاشرے کا عکس رہے ہیں ، معاشرے سے بہت دور جاکر قانون سازی نہیں کی جاسکتی، اگر پاکستانی معاشرے کی بات کرے اور اس معاشرے کے لوگوں کو جانے کی کوشش کریں اور جس سے اندازہ ہوتا ہے ہمارے معاشرے میں اکثریت ناخواندہ لوگو ں کی ہے ، جاہلیت کی ہے ملک میں زیادہ علاقہ دہی ہے جو اَن پڑھ ہیں جو موجودہ دنیا کی ترقی یافتہ شکل سے بھی واقف نہیں دینی اور اخلاقی مماملات میں بھی زوال پزیز ہیں لیکن ہم ایک ایسا قانون بنائے گے جس کے نتیجے میں سیدنا ابوبکر صدیق سے کم  درجے کا آدمی ہمارا حکمران نہیں ہو گا تو یہ صرف خواب ہے،  ایسا کوئی قانون بھی معاشرے میں استحکام حاصل نہیں کر سکتا  جلد یا بادیر معاشرے اسے ختم کر دے گا کسی معاشرے کے اندر اعلیٰ اقدار کو تروجیح دینا  اور اس کی بنیاد پر اچھے قوانین بنانا کوئی بری چیز نہیں ہے لیکن اس میں معاشرے کے ساتھ چلنا پڑتا ہے چنانچہ معاشرے میں دانشوروں اور مصلحیں کا یہ کام ہے کہ وہ معاشرے کو اپنا مخاطب بنائے معاشرے کے اندر اخلاقی اقدار کا شعور بیدار کریں معاشرے کو مخاطب کر کے اسے اس دلدل سے نکالے جس کے اندر وہ لتھڑا ہوا ہوتا ہے اس میں بلندی کا احساس پیدا کریں معاشرہ جتنا باشعور ہو گا اسی لحاظ سے دو قدم آگے آ کر قانون سازی کی جاسکتی ہے لیکن زمین اور آسمان کا فرق نہیں رکھا جا سکتا ۔



پاکستان کے مروجہ آئین میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ملک کے حکمران صادق اور امیں لوگ ہونے چاہیے، یہ بلکل اسی طرح کی چیز ہے جیسے دیگر آئین کی شکے کو مطالعہ کریں قرارداد مقاصد منظور ہوئی اور اسے آئین کا حصہ بنایا گیا جس کے مطابق قرآن و سنت کے علاوہ کوئی قانون نہیں بنے گا جو اعلیٰ اقدار کے اظہار تک ہی محدود ہے لیکن اس قانون سازی کے ہونے کے باوجود معاشرہ اس سے غیر مطالق رہا اس وجہ سے معاشرے کے وہ لوگ جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کے لئے یہ نقطہ زیر غور ہے کہ قانونی اصلاحات ہمیشہ معاشرے کی اطباع کرتی ہے نہ کہ معاشرہ ان سے کوئی نئی شکل  اختیار کرسکتا ہے، سیاست میں وہی حقائق سامنے لانے چاہیے جو وقوع پزیر ہو چکے ہوں اگر نئے حقائق پیدا ہونے کی طرف بعض ملکی قائدین معاشرے کو لے جانا چاہتے  ہیں تو اس کا بہترین حل معاشرے کی اصلاح ہے ایسا شخص جو صاحب علم ہو لوگوں کو متاثر کر سکتا ہو اور معاشرے میں لوگوں کو استدلال کے ساتھ  اپنی رائے کا حامی بنا سکتا ہے اور انتخابات کے ذریعے لوگوں کو بتاتا ہے کہ انھیں معاشرے میں  باایمان سچا ، دیانتدار اور صادق آدمی آگے لانے کی سعی کرنی چاہیے تو یہ حوصلہ افزاء جدوجہد ہو گی اس کا مطلب ہے جہاں سے تبدیلی آنی ہے انہی لوگوں کا مخاطب کیا گیا ہے اس کے برعکس حدف یہ بنا لیا جائے کہ قانون کی چھلنی ایسی ہونی چاییے تو چیز ناقابل عمل ہو جائے گی اس کے نتیجے میں ایسے لوگ آ جائے گے جس کے لئے معاشرہ اپنی قیادت کے لئے قبول نہیں کر رہا ہو گا پھر منافقتیں پیدا ہو گی جس کا مشاہدہ ماضی میں کیا جا چکا ہے اسی قیادت کے فقدان کے سبب اقتدار فوج سنبھالتی رہی اور  جدید قوموں کے طرز معاشرت اور اصلاحات کو نافذ کیا گیا جو ناقابل عمل ثابت ہوئیں۔ گزشتہ بلدیاتی نظام جس میں نظامین بنائے گے پہلے انتظامی ڈھانچے کی جگہ نئے انتظامی ڈھانچے کو لایا گیا یہ ساری کی ساری چیزیں ختم ہو گئی اسی طرح اسلامی قوانین  کو بھی   معاشرے سے ہم آہنگ   کر کے نافذ کی جا سکتا ہیں پہلے معاشرے کی تعمیر پھر قوم کے دانشوروں کا اعتماد پیدا کرنے سے اور شریعت کے مطالق بھی نظام جو جمہوری اقدار پر ہو اس کے بعد اگلا قدم بڑھایا جا سکتا ہے، معاشرے کی تعمیر سے قانون بہتر ہو تا ہے نہ کہ معاشرہ قانون سے تبدیل ہو سکتا ہے اور معاشرے کے افراد کو روشن مستقبل کی نوید مل سکتی ہے۔


 



160