یہ مصدقہ حقیقت ہے کہ کسی بھی منصوبے کے عملی مراحل کو پورا کرنے کے لیئے ایک ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹیم کا ایک ٹیم لیڈرہوتا ہے۔ جو منصوبہ کے آئیڈیا کو پورا ادراک رکھتا ہو۔ منصوبہ کی ضروریات کے لیئے اہل ماہرین اکھٹے کرے، ان میں آپس میں اعتماد قائم کرے اور وہ ماہرین منصوبہ کے لیئے وقت اور آرام کے لیئے اپنی قربانی کر سکیں۔ یہ کلیہ قومی سطح پر، ادارتی سطح پر اور ذاتی سطح پر کسی بھی منصوبہ کی کامیابی کی کنجی ہوتا ہے۔ ان اوصاف سے خالی کوئی رہنما، کوئی سربراہ۔ کوئی ٹیم لیڈر اس منصوبہ کی ناکامی کا آغاز ہو گا۔ وطن عزیز میں ہر سطح پر مخلص اور اہل قیادت کی اشد ضرورت ہے۔
۲۔ عوامی جہالت۔
قیادت میں نا اہل یا ذات پرست افراد اسی صورت میں آسانی سے عوامی منصوبوں کو اپنے مفاد کے لیئے داؤ پر لگا سکتے ہیں۔ جب کہ رعایا جاہل ہو۔ وطن عزیز کا سب سے بڑا دشمن عوام و خواص میں جہالت ہے۔ جہالت ہر بے توقیرگی کی بنیاد ہوتی ہے۔ ہر زوال کی ابتدا ہوتی ہے۔ اور جہالت پر قناعت زوال کی انتہا اور غلامی اور ابتدا ہوتی ہے۔
۳۔ معیشت کا بحران۔
موجود معیشت کے بحران کی بنیاد متعدد جہتی ہے۔ جو کم علمی اور کم محنتی سے شروع ہو کر ہر سطح پر غیر کفایتی اور اسرافی طرز معاشرت کا برھتا ہوا رواج ہے۔ قیادتی سطح پر شاہ خرچیاں اور اشرافی سطح پر نمائشی طرز حیات، عوامی سطح پر بد حالی معاشرے میں ایک ایسی داراڑ پیدا کر چکی ہے جس کو بھرے بغیر پاکستانی معاشرہ نہ اسلامی نمونہ بن سکتا ہے۔ اور نہ ہی مستحکم رہ سکتا ہے۔ ان حالات میں معاشرہ چھینا جھپٹی میں ڈوبا رہے گا۔
۴۔ ملکی سالمیت اور قومی وحدت۔
یہ دونوں عناصر ایک دوسرے سے مربوط ہے۔ داخلی افرادی، سماجی اور معاشی تحفظ سے شروع ہو کر عقائدی و فکری ہم آہنگی ہماری سلامتی کے لیئے فوجی طاقت سے زیادہ اہم عناصر ہے۔ فقط ان دونوں محاذوں پر یعنی افرادی، سماجی اور معاشی تحفظ اور عقائدی و فکری ہم آہنگی میں ہم بہت کمزور ہیں۔ ان دونوں جہتوں میں سنجیدہ تحلیل کی ضرورت ہے۔ معاشرہ اس وقت فکری اور عقائدی افتراق میں ہے اور ہمیں قومی وحدت سے دور رکھ رہا ہے۔