والدین کے حقوق

Posted on at



الله کی دی گئ بہترین نعمتوں میں والدین بھی شامل ہیں. لیکن زیادہ تر دکھانے میں آیا ہے کہ اولاد اس نعمت کی قدر نہیں کرتی. مگر انھیں اپنی اس غلطی کا اندازہ اس وقت ہوتا جب وو خود اس اسٹیج پر پہنچتےہیں. جب ان کی اولاد بھی ان کو اسی طرح ڈانٹتی، اور دھتکارتی ہے جیسے وہ اپنی جوانی میں اپنے والدین کو ڈانٹتے تھے. مغرب میں اپنے بوڑھے والدین سے جان چرانے کے لئے انھیں اولڈ ہومز میں چھوڑ دیا جاتا ہے. کچھ ایسا ہی سلسلہ اب پاکستان میں چل پڑا ہے. تاہم یہ ابھی زیادہ عام نہیں ہوا..

میں کہتی ہوں کہ ایسا کرنے والی اولاد یہ کیوں نہیں سوچتی کہ جب وو خود بہت چھوٹے تھے کچھ کھا پی نہیں سکتے تھے تو والدین نے تو ان سے جان چرانے کی کوشش نہیں کی. تب تو والدین نے اپنا دن رات ان کے لئے وقف کر دیا. اولاد کو والدین کا ساری رات کھانسنا کیوں برا لگتا ہے وہ کیوں بوڑھے والدین کی کھانسی سے تنگ ہوتے ہیں جب والدین ان کے بچپن میں رات رات بھر رونے سے نہ تنگ ہوئے اور نہ انھیں برا لگا. آج بچے جب جوان ہوئے اور ماں باپ بوڑھے ہوئے تو کیوں بچوں کو والدین کو سہارا دے کے چلانا برا لگتا ہے جب ماں باپ نے ہی انھیں چلنا سیکھایا؟ اولاد کو ماں باپ کا ایک ہی بات کو بار پوچھنا کیوں برا لگتا ہے جب ان کے بچپن میں ان کے والدین کو ان کے ہر وقت کے بے تکے سوالات کے جواب دینا برا نہیں لگتا تھا. افسوس صد افسوس اس بد نصیب اولاد پہ کہ جو بوڑھے ماں باپ کے ہوتے ہوئے بھی خود پہ جنّت واجب نہ کروا سکی.

ایسی اولاد جو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرے وہ کیسے یہ امید کر سکتی ہے کہ جب وہ بڑھا ہو جائے تو اس کی اولاد اس کی خدمت کرے گی. جب اس نے اپنے ماں باپ کی ضروریات پوری نہیں کیں ان کے ساتھ وقت نہیں گزارا تو ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کی اولاد اس کی ضروریات پوری کرے یا اس کے ساتھ اس کی خوشی کی خاطر کچھ وقت گزار لے. بیشک رب کریم کے پاس بہت زبردست انصاف ہے. اپنے ماں باپ کی طرف سے لاپرواہی برتنے والی اولاد کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے جو انھوں نے کیا ہوتا ہے.
ہمارے گھر کے پاس ایک انکل رہتے ہیں جن کے دو شادی شدہ بیٹے ہیں.ان کے بیٹے اور بہویں ابھی جو رمضان گزرا ہے اس میں خود کمرے میں بیٹھ کے آرام سے افطار کرتے تھے اور انکل اور انٹی کو باہر تھوڑی تھوڑی چیزیں ڈال کر دیتے تھے اور وہ دونوں باہر افطار کرتے تھے. بات یہ ہے کہ کیا وہ دونوں انسان نہیں ہیں؟ یا بہویں اور بیٹے زیادہ بڑے لوگ ہیں جو وہ ان کے ساتھ کھانا نہیں کھا سسکتے. انکل بیچارے جب یہ باتیں کرتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں. انٹی بیمار ہیں آج کل تو بہوؤں نے کہا ہے ہے ہم انھیں نہیں سنبھال سکتے تو اب ان کی بیٹی انٹی کو اپنے گھر لے گئی ہیں.


لیکن ہمارے بڑے بتاتے ہیں کہ ان انکل کے ابو کافی غریب ہوا کرتے تھے اور انکل کی جاب اچھی ہوتی تھی تو یہ انکل بھی اپنے ابو کو نہ پیسے دیتے تھے اور نہ ہی ان کی طرف جاتے تھے. ان کے ابو کھیتوں میں کام کیا کرتے تھے تو جب وہ بیمار ہوں اور ان سے کہیں کہ آج تم کام کر دو تو یہ انکلے کہتے ہوتے تھے کہ میں نہیں کرتا میرے کپڑے گندے ہوتے ہیں جب اپ خود ٹھیک ہو جایئں گے تو خود کر لیجئے گا. انکل کے ابو کو وفات سے ایک سال قبل فالج ہوا تھا تو یہ اپنے ابو کو دوائیں لا کر نہیں دیتے ہوتے تھے. اپنی امی کے ساتھ یہ کبھی سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتے ہوتے تھے. امی کی سیدھی بات پے بھی یہ انکلے بہت شور مچایا کرتے تھے اور ان سے لڑائی کرتے تھے.

اب ان لوگوں کے لئے کہ جو یہ سوچ رہے ہیں کہ انکل کے بیٹوں کا کوئی قصور نہیں. تو اسے لوگ یہ سن لیں کہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق اگر بچوں کو یہ معلوم بھی ہے کہ ان کے والدین نے اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا تو بھی اپنے والدین کی خوب خدمات کرنا ان کا فرض ہے. کیونکہ اگر ان کے والدین نے اپنے والدین کی خدمات نہیں کی تو انہوں نے اپنے فرض سے کوتاہی کی اور اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان کی اولاد جان بوجھ کر اپنے فرض سے کوتاہی کرے.
بیشک ماں اور باپ اولاد کو بد دوا نہیں دے سکتے لیکن جب اولاد ماں باپ سے بدسلوکی کرتی ہے اور ماں باپ خاموش ہو جاتے ہیں ناں تو وہ خاموشی ہی اولاد کو لے ڈوبتی ہے. لہٰذا خدارا اپنے ماں باپ کی خدمات کریں. ان کی بات مانیں. ان سے غصے سے بات نہ کریں تا کہ یہ دنیا اپ کے لئے جنّت کا ایک ٹکڑا بن جے. ماں باپ کی نافرمانی کر کے اپنا مستقبل تاریک نہ کریں کیوں کہ نافرمان اولاد کے دروازے پہ اچھی قسمت دستک دینے سے گریز ہی کرتی ہے.



About the author

Sahar_Fatima

I am Sahar Fatima. And I am interested in bloging.

Subscribe 0
160