پاکیزگی صحت کی علامت ہے

Posted on at


 پاکیزگی صحت کی علامت ہے

انسان کا لباس، جسم کی پاکیزگی اور صفائی ستھرائی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اسلام اگرچہ لباس میں شان و شکوہ، اسراف بے جا اور تکلف کو پسند نہیں کرتا، لیکن لباس میں صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کا مطالبہ ضرور کرتا ہے۔ ظاہراً شکل و صورت کو بھی قرینے سے رکھنے کی اسلام تاکید کرتا ہے، کیونکہ یہ بات بھی پاکیزگی اور صفائی کے ضمن میں آتی ہے۔ اسلام اس کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی آدمی اپنی شکل وحشیوں کی سی بنائے ہوئے میلا کچیلا بدن رکھ، بے تُکے بال بڑھائے ہوئے پھرے۔ چنانچہ رسول اکرم  نے ﷺ ارشاد فرمایا

خدا تعالیٰ میلا کچیلا بدن اور بکھرے بال پسند نہیں فرماتا

ناخنوں کے ذریعے سے بھی بہت سی غلاضت کھانے کے ساتھ پیٹ کے اندر جاکر معدے کی بہت سی بیماریاں پیدا کرتی ہے اور ویسے بھی وحشیوں کی طرح ناخن بڑھائے ہوئے آدمی اچھا نہیں معلوم ہوتا۔

نبی کریمﷺ  نے جن دس چیزوں کو پیغمبرکی سنت قرار دیا ہے ان میں ایک ناخنوں کا تراشنا بھی ہے۔

جسم اور روح کی پاکیزگی اور صفائی کے ساتھ اسلام اس ماحول کی پاکیزگی اور صفائی ستھرائی کا بھی مطالبہ کرتا ہے جس میں انسان رہتا ہے۔ مثلاً جس گھر میں وہ رہتا ہے اسے صاف ستھرا رکھے اور ہر ایسی چیز سے پرہیز کرے کہ جسے دیکھ کر دوسروں کو کراہت آتی ہو یا تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو، مثلاً بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ گھر کا کوڑا کرکٹ صاف کر کے اپنے دروازے کے سامنے سڑک پر یاگلی میں ڈال دیتے ہیں اس سے ایک تو خود ان کے گھر والوں کو پھوہڑپن ظاہر ہوتا ہے، دوسرے راہ چلنے والوں کو ان کے اس عمل سے تکلیف ہوتی ہے۔ اسی طرح راستوں میں تھوکنا، باربار ناک میں انگلیاں ڈال کر میل نکالنا، سایہ دار درختوں کے نیچے، گزرگاہوں میں پیشاب کرنا۔ یہ سب چیزیں صاف ستھرے ماحول کو متاثر کرتی ہیں۔ اسلام ان سب باتوں کو طہارت اور تہذیب کے خلاف قرار دیتا ہے۔

کون ہے جسے اپنی زندگی عزیز نہ ہو، جو صحت و تن درست زندگی کا خواہشمند نہ ہو، جو طویل عمر کا خواہشمند نہ ہو، جس کے دل میں یہ آرزو نہ ہو کہ جب تک زندہ رہے کسی پر بار نہ بنے۔ ہاتھ پاؤں کام آتے رہیں، دماغ، آنکھ اور زبان سلامت رہے، یہ سب کی آرزو ہے ہر فرد اور ہر شخص کی تمنا ہے۔ لیکن کام صرف آرزؤں سے نہیں بنا کرتے۔ اس کو بروئے کار لانے کے لئے یقین محکم اور عمل پیہم کی ضرورت ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ برف کو انگارہ سمجھ لیا جائے اور انگارہ برف کی صورت اختیار کرلے۔ اگر برف کی ضرورت ہے تو اسے پیدا کرنے کے لئے وہی اسباب اور وسائل پیدا کرنے ہوں گے جو اُس کو پیدا کرسکیں۔ اگر آگ جلانی ہے تو برف کے دوٹکڑے رگڑکر نہیں جلائے جاسکتے۔ غرض کوئی بھی کام ہو وہ اسی وقت انجام پاسکتا ہے جب صیح طور سے اس کے اسباب اور وسائل باہم پہنچ جائیں۔

پس اگر صحت مند زندگی بسر کرنا مقصود ہے تو ضروری اور لازمی ہے کہ سب سے پہلے حفظانِ صحت کے اصولوں کو جانا جائے اور دیانت کے ساتھ ان پر عمل کیا جائے یہ کیونکر ممکن ہے کہ بد پرہیزی کا سلسلہ جاری رہے، صحت کو تباہ و برباد کرنے والی عادتوں سے پیچھا نہ چھڑایا جائے۔ ان تمام اصولوں کو نظر انداز کیا جائے جو صحت و تن درستی قائم رکھنے میں معاون ہوتے ہیں۔ ان تمام عادتوں کو اختیار کر لیا جائے جن سے صحت بگڑتی، زندگی کم ہوتی اور بیماری قابو پاتی ہے اور پھر توقع کی جائے کہ ہم امر ہیں۔ مرض دوسرے کے لئے ہیں، عافیت اور صحت ہمارا حصہ ہے، کوئی بیماری ہمارے قریب بھی نہیں پھٹک سکتی۔ یہ محض خوش فہمی، بلکہ زیادہ صیح الفاظ میں خود فریبی ہے۔ جس طرح دو اور دو چار ہوتے ہیں، ٹھیک اسی طرح انسان کا کردار اور اس کا عمل اس کے مستقبل کی سلامتی یا بربادی کا غماز اور ثمر ہوتا ہے۔

مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ،،خیر امت،، کے خطاب سے نوزا ہے اور انہیں معروف کا حکم دینے اور منکر سے روکنے کا فریضہ سونپا گیا ہے۔ کیا یہ فریضہ کوئی ایسی قوم یا جماعت انجام دے سکتی ہے جو نحیف و ضعیف ہو جس کی صحت خراب ہو، جو زمانے کا مصائب برداشت کرنے کی ہمت نہ رکھتی ہو؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہی دیا جا سکتا ہے، پھر اگر ہم واقعی ،،خیرُامت،، بننا چاہتے ہیں اور ہو فرائض ادا کرنا چاہتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم پر عائد ہوتے ہیں تو ہمیں مضبوط، توانا اور طاقت ور بننا چہئے۔ طاقت و توانائی حاصل کرنے کے لئے ضروری اور بہت ضروری ہے کہ ہماری ضحت قابل رشک ہو۔



About the author

muhammad-haneef-khan

I am Muhammad Haneef Khan I am Administration Officer in Pakistan Public School & College, K.T.S, Haripur.

Subscribe 0
160