نیو بون بے بی کی ضرورت ماں کا دودھ حصہ سوئم

Posted on at


نیو بون بے بی کی ضرورت ماں کا دودھ حصہ سوئم

 

 

 

جن بچوں کو ڈبے کا دودھ راس نہیں آتا وہ پیٹ کی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور جن کو راس آ جاتا ہے وہ پھولنا شروع ہو جاتے ہیں جن سے بظاہر تو لگتا ہے بچہ صحت مند ہے مگر بچہ صحت مند نہیں ہوتا۔

ڈبے کے دودھ سے بہتر ہے کہ بچے کو گائے۔ بھینس۔ بکری کا دودھ دے دیا جائے شروع شروع میں یہ کہا جاتا ہے کہ اگر ماں کا دودھ نہیں ہے تو بکری کا دودھ بچے کو دو وہ اکثر بچوں کو راس بھی آ جاتا ہے مگر یہ زیادہ طاقت ور نہیں ہوتا اس لیے کوشش کرنی چائیے کہ گائے کے دودھ پر بچے کو لگانا چائیے یہ زیادہ طاقت وہ ہوتا ہے اکثر بچوں کو شروع شروع پیٹ ضراب کا مسلہ ہو جاتا ہے ایسا کرنا چائیے کہ یہ زیادہ طاقت وہ ہوتا ہے اس میں پانی شامل کرنا چائیے اس سے یہ ہو گا کہ کچھ تو طاقت بچے کے اندر جائے گی یہ دودھ ڈبے کے دودھ سے تو بہتر ہو گا ۔

 

 

پھر آہستہ آہستہ بچے کو بھینس کے دودھ پر لانا چائیے اس سے وہ اس دودھ کا عادی ہو جائے گا اور پینا بھی شروع کر دے گا اکثر ایسا ہوتا ہے کہ شروع شروع بچے کو یہ دودھ راس نہیں آتا تو والدین گھبرا کر چھوڑ دیتے ہیں کہ بچے کو یہ دودھ خراب کرتا ہے اگر اس میں پانی ڈال کر اسے پتلا کر لیا جائے تو بچہ آسانی سے یہ دودھ کو ہضم کر لے گا گاڑا ہونے کی وجہ سے بھی بچہ دودھ ہضم نہیں کو پاتا اور وہ دودھ نکالتا ہے ۔

سب سے بہتر یہی ہے کہ ماں بچے کو اپنا دودھ پلائے اس سے بچہ اور ماں دونوں ہی صحت مند رہتے ہیں ماں کے دودھ سے بچے کی نشوونما بھی ٹھیک طریقے سے ہوتی ہے بچہ چڑچڑا بھی نہیں ہوتا کیونکہ اس کی خوراک میں ہر ضرورت پوری ہو رہی ہوتی ہے جس کی اس کو ضرورت ہوتی ہے اور بچہ بھی ماں کے دودھ سے سہی طریقے سے پھلتا پھولتا ہے اس لیے ماں کا دودھ بچے کہ لیے سب سے بسٹ ہےاس سے بچہ  بھی مختلف بیماریوں سے بچا رہتا ہے اور ماں بھی تندرست و توانا رہتی ہے۔

 

 



About the author

160