علامہ محمد اقبال کی روحانی تعلیمات ،عصر حاضر کے تقاضے

Posted on at


 علامہ محمد اقبال کی  روحانی تعلیمات ،عصر حاضر کے تقاضے


علام محمد اقبال پوری دنیا میں اپنی شاعری کی وجہ سے جانے جاتے ہیں لیکن برصغیر پاک و ہند میں انھیں ایک الگ مرتبہ و مقام حاصل ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری میں امت مسلمہ کے لئے عظیم درس ہے۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے اسلامی فلسفہ حیات اختیار کرتے ہوئے مسلمانوں کو خودی کا سبق دیا آپ کا فلسفہ حیات کا محور  قرآن کریم کی تعلیمات ہیں جب متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کی زندگیوں کو انتہا پسند ہندو اجیرن بنا رہے تھے اور اُس وقت اعلیٰ سرکاری عہدوں پر براجمان ہندو انگریزوں سے سر جوڑ کر مسلمانوں کے لئے سازشوں کا تانا بانا بھن رہے تھے۔  ان سارے پیش نظر خطرات کو علامہ اقبال کی تدبرانہ بصیرت نے بھانپ لیا اسی لئے علامہ اقبال نے ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست کا تصور پیش کیا۔ آپ رحمت اللہ کی شاعری میں اسلاف کی پر تپاک فتوحات اور عظیم کردار کا سبق ہے۔



علامہ اقبال کی امت مسلمہ کی انہی خدمات و فکر کو موضوع  گفتگو بنایا گیا۔ پوسٹ گریجویٹ کالج ایبٹ آباد میں اس سلسلے میں ایک چھوٹی سی تدریسی محفل کا اہتمال کیا گیا جس میں پروفیسر حضرات اور طلباء و طالبات نے شرکت کی۔ یہ محفل خالصتاً علامہ اقبال کی تعلیمات اور موجودہ دور میں مسلمانوں کی حالت زار  پر مبنی تھی۔ اس تدریسی محفل کی گفتگو کا اصل محور پاکستان تھا آخر ایک آزاد خطے کو حاصل کرنے کا کیا مقصد تھا۔


محفل کا آغاز پروفیسر صاحب کے پرجوش بیان سے کیا جاتا ہے ، اب وقت ہے ٹو ٹیک آف، اب پیچھے نہیں دیکھنا نہ اعتراز کرنا ہے اب یہاں سے آگے شروع کرنا ہے ، سوال یہ ہے اب ہمارے پڑھے لکھے نوجوانوں دانشوروں ، قلم کاروں ، اصلاحین کو  کیا کرنا ہےاور موجودہ نسل کو جسے  مڈل فوٹین و مڈل ففٹین میں اللہ لے کر آیا ہے اب اللہ ہماری مدد کریں، رہنمائی کرے، مدد  کرے، ہمارے دلوں میں وہ روشنی بیدار کر دے جس سے نوجوان نسل اپنی لازوال تاریخ جان سکے اور ان جوانوں کا کام ہے اس پیغام کو اپنے دلوں میں جذب  کر لیں اور اسی پیغام پر عمل پیرا ہو کر آگے نکلے اب کسی صورت معافی اور غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔


حاضرین محفل میں سے ایک طالب علم کا سوال آتا ہے ، روحانی طاقت پر کیوں زور دیا جارہا ہے اور اس کے امت مسلمہ کے اوپر کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔ اس سوال کا جواب بڑا جامع تھا۔


روحانی طاقت کا مطلب امت مسلمہ کی وحدت کے پیغام کو زنجیری شکل دینا ہے یعنی ایک سے دو ، دو سے چار ، چار سے آٹھ، اسی طرح اسلام کی اصل روحانی طاقت کی بدولت مسلمانوں کو قرآن و سنت کی تعلیمات اور اسلاف کے کردار و عظمت سے روشناس کرا کے عہد رفتہ کے مسائل سے نکال کر ملت کے اہداف کی تکمیل ہے۔ روحانی طاقت کسی مخصوص شکل و شہبات کا نام ہر گز نہیں ، روحانی طاقت کا مقصد ہے امت کا آپس میں قلبی رابطہ۔ نظریات و خیالات میں ہم آہنگی لانا، اختلافات کی وجوہات سمجھ کر بحث کر کے ختم کرنا تا کہ وہ ہدایت نظر آ جائے جس سے مسائل کا تدراک ہو سکے۔  


علامہ اقبال کا آنا بذات خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتنی بڑی روحانی تائید ہے، اللہ تعالیٰ جب مسلمانوں کی مدد کرنا چاہتا ہے تو کوئی تحفہ بھیج دیتا ہے ، اللہ تعالیٰ لمبے چکروں میں نہیں پڑتا، اور یہ تحفہ خود اتنا بڑا ادارہ ہوتا ہے کہ وہ سارے کام خود کر لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس تحفے کی مقصدیت کی انجام دہی تک حفاظت بھی کرتا ہے آپ کے خیال میں اقبال کو دشمنوں نے شہید کیوں نہیں کر دیا قائداعظم کو شہید کیوں نہیں کر دیا، کیوں کہ اللہ نے کام کروانے تھے ان شخصیات کی حفاظت کیا روحانیت سے نہیں کی جا رہی تھی اور اس کے بعد پاکستان کا قیام عمل میں آیا ، جس کے بارے میں دنیا   نے یہ کہا تھا کہ پاکستان چھ مہینوں بعد ختم ہو جائے گا یہ بڑھ کر ایک جوہری طاقت کیسے بن گیا ہم ہر چیز کلکولیٹ کر رہے ہیں کیا ہمیں کوئی بندہ نظر آئے گا۔ قدرت اللہ شہاب جو ایوب خان کے پرسنل سیکڑری تھے ایک بہت بڑی روحانی شخصیت تھی ،  نقطہ یہ کہ اشفاق احمد کون تھے، ممتاز مفتی کون تھے، آج کے دور میں بھی پاکستان کے اندر جو خیر نظر آرہی ہے آپ کو سوٹ و ٹائی باندھنے والے ایسے فقیر ملے گے جو فارن منسڑری میں، کوئی ڈیفنس میں کوئی آرم فورسز میں اور کوئی سولجر یا سپائی جو میدان جنگ میں کھڑا ہے اللہ کی روحانی تائید کی وجہ سے ہے وہ اپنی جان مال قربان کر رہے ہیں۔



یہ خیال پختہ نہیں ہے کہ موجودہ دور میں ملک کو اندرونی و بیرونی  درپیش  خطرات و بحرانوں کے سبب دشمن کو موقعہ میسر نہ ہو کہ وہ اس ملک پر حملہ  کر دے دشمن کس بات سے خوف کھا کے بیٹھا ہوا ہے کیوں اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈالا ہوا ہے، ہم کیوں ابھی تک بچ گئے ہیں  اور ہمیں بچانے والا کون ہے سوائے رب کی ذات کے۔ جب حضورﷺ  کے آگے ایک کافر تلوار لے کر کھڑا ہو کر کہتا ہے کہ اب آپ کوکون بچائے گا  ، تو آپﷺ جواب دیتے ہیں میرا اللہ۔ جب دعائیں قبول ہوتی ہیں جب اللہ حفاظت کرتا ہے تو لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ کے پیچھے کوئی نہ کوئی ایجنسی کام کر رہی ہے کہ ابھی تک آپ بچے ہوئے ہیں ، دشمن فورسسز تو آپ کے پیچھے پڑی ہیں لیکن ہمارے پیچھے بھی روحانیت کی طاقت ہے ، ماں کی ، بہن ، بیٹیوں کی دعائیں ہیں، اس بات سے سب متفق ہیں جوہری قوت بننا ، اس کی حفاظت کرنا، ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنا، یہ سب اللہ کی طرف سے عطا کی ہوئی روحانی تائید کی بدولت ہے اس کے برعکس قوم کے اندر کوئی انوکھی بات یا غیر معمولی صلاحیت نہیں ہے۔


علامہ اقبال کہتے ہیں میں ساری دنیا میں گھوما ہوں ہر قسم کی ڈاکٹرین اور پی ایچ ڈی میں لے کر جب واپس پہنچا   تو آخر میں سکون مجھے قرآن میں ملا ہے۔ قرآن کے بارے میں جب علامہ اقبال جب چھوٹے تھے وہ قرآن پڑھ رہے تھے کہ ان کے والد ان کے قریب سے گزرے تو ان کے والد نے اقبال سے پوچھا کہ تم کیا پڑھ رہے ہو تو انھوں نے جواب دیا کہ قرآن پڑھ رہا ہوں والد پھر گزر کر واپس آئے وہی سوال کیا کہ کیا پڑھ رہے ہو وہی جواب کہ قرآن پڑھ رہا ہوں، اقبال نے حیرت سے اپنے والد سے پوچھ لیا کہ بار بار آپ مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں تو تھوڑی دیر کے بعد ان کے بابا نے کہا کہ بیٹا قرآن اس طرح پڑھا کرو جیسے وہ تم پر نازل ہورہا ہو۔ اب اس بات کی گہرائی کو سمجھے، کہ قرآن حضورﷺ کے لئے نہیں ہے بلکہ حضورﷺ کے ذریعے ہمارے لئے ہے۔ ہمیں اس قرآن پر عمل کر کے ہدایت حاصل کرنی ہے حضورﷺ قرآن مجید کے نازل ہونے کا مبارک وسیلہ ہیں اور اس پر عمل کرکے اس کی عملی شکل ہمیں بتا رہے ہیں قرآن کی ہر آیت ہر دور میں پڑھنے والے کو کھینچتی ہے اس سے باتیں کرتی ہے ہر مسائل کے حل کے لئے قرآن آپ سے ڈرائکٹ بات کرے گا جب قرآن کریم کو ترجمے کے ساتھ پڑھا جائے یہ مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ ترجمہ قرآن کے اصل مفہوم کو محدود کرتا ہے گزارہ کرنے کے لئے عربی زبان کا بنیادی علم تو ہونا چاہیے اور قرآن کا ترجمہ کر کے ایک آئیڈیا لیا جاسکتا ہے قرآن کیا کہہ رہا ہے لیکن قرآن کی کوئی آیت جس میں عربی زبان میں ہی کئی معنی نکلتے ہو ترجمے میں تو وہ معنے واضح نہیں ہو رہے لہذا ترجمے کو ایک محدود زہن کے طور پر سمجھا جارہا ہوتا ہے اس مقصد کے لئے  عربی زبان کے کچھ کورسس کر لئے جائے ترجمہ اور مفہوم سمجھنا آسان ہو جاتا ہے ، قرآن مجید کے چھ سات سو الفاظ ہیں جو بار بار دہرائے جارہے ہیں، قرآن کا موجزہ یہ ہے قرآن کا نزول قلب کے اوپر ہوتا ہے ایک دفعہ دو دفعہ جب قرآن کی تلاوت کر دی جائے تو آپ حیران ہو گے تو عربی زبان میں لکھا ہوا قرآن سمجھ میں آنا شروع ہو جائے گا۔



اقبال کس طرح قرآن کو سمجھے ہیں اقبال نے جو تفسریں بیان کی ہیں قرآن و حدیث کی وہ اتنی حیرت انگیز ہیں کہ چودہ سو سال کے دوران کسی مسلمان سکالر نے اس طرح واضح ہی نہیں کیا جیسے اقبال کررہے ہیں رموز بے خودی میں قرآن مجید کی سورہ اخلاص کو اس طرح بیاں کیا گیا ہے کہ   امت مسلمہ کی ساری ڈاکٹرین اس میں بند کر دی۔ بار بار اپنی شاعری میں یہ بیان کر رہے ہیں کہ تم


اوالنجم کا مطلب نہیں سمجھے تو کیا عجم


ہے  تیرا  مدوجزر ابھی  چال  کا   محتاج


***************************************************************


 



160