بچوں کو کہانیاں یوں بھی سنائی جا سکتی ہیں

Posted on at



عمر کے مختلف حصوں میں بچوں کو مختلف قسم کی کہانیوں کا شوق ہوتا ہے- لیکن چند امور جو پیش نظر رکھنا ضروری ہیں وہ یہ ہیں
١: بچوں کے لئے کہانی میں خوف کا عنصر نہیں ہونا چاہئے
٢: کہانی میں سموۓ گئے نظریات حقیقت سے قریب تر ہوں تاکہ بچہ منتشر الخیالی سے محفوظ رہے
٣: کہانی کی زبان عام بول چال کی زبان سے قریب تر ہونا چاہئے
٤: مافوق الفطرت کردار مثلاً جن بھوت وغیرہ کی کہانیاں چھوٹے بچوں کو نہیں سنانی چاہئیں- اس سے بچے توہمات کا شکار ہو جاتے ہیں خیالی دنیا میں کھوے رہتے ہیں
٥: کہانی سنتے ہوۓ بچے کے ذہن میں کئی طرح کے سوال پیدا ہوتے ہیں- اس کے سوالات آپ کے خیال میں کتنے ہی لایعنی کیوں نہ ہوں ان کو غور سے سن کر بچے کے ذہن کو مطمئن کرنے کی کوشسش چاہئے- ظاہر ہے بچہ فلسفیانہ جوابات نہیں مانگتا وہ تو سیدھے سیدھے الفاظ میں سیدھے سیدھے جوابات سے ہی مطمئن ہو سکتا ہے- جوابات نہ دے سکیں تو بچے کو ٹرخانے یا جھرکنے کی پالیسی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے
دو سے تین سال کے بچے جانوروں کو چھوٹے بچوں کی کہانیوں میں زیادہ دلچسبی لیتے ہیں- کہانی کا موضوع اور کردار کچھ بھی ہو اس کا مقصد بڑا واضح ہونا چاہئے- کہانی مختصر اور نتیجہ خیز ہونا چاہئے- کہانی میں اچھائی کو فاتح ہوتی نظر آے اور برائی مغلوب ہوتی دکھائی دے- کہانی اخلاقی فضائل و رذائل ذہن نشین کروانے میں بہت اثر رکھتی ہے- مثلاً ڈیڑھ دو سال کا بچہ چڑے چڑیا کی کہانی کو خوب سمجھ لیتا ہے اسے بتائیے "ایک چڑا تھا' ایک چڑیا تھی- چڑا چاول کا دانہ لایا' چڑیا دال لائی' دونوں نے مل کے کھچڑی پکائی- پھر مل کر کھا لی- دونوں بڑے اچھے تھے مل کر کام کرتے تھے' لڑتے بھی نہیں تھے- ان کے ساتھ والے گھر میں ایک کوا اور مینا رہتے تھے- ایک دن کوا مینا کے سارے انڈے کھا گیا' بڑا برا تھا کوا لالچی کہیں کا!" کہانی کے مکالمے اور الفاظ روزمرہ کی گفتگو کے مطابق ہوں تو بچے کو سمجھنے اور نتائج اخذ کرنے میں سہولت ہوتی ہے- کتابوں میں پڑھی جانے والی کہانیوں میں معمولی ردوبدل کر کے بچے کو حسب منشا صفات ذہن نشین کرانے والی کہانیاں سنائی جا سکتی ہیں
کہانی کا موضوع تلاش کرتے ہوۓ اس بات کو ذہن میں رکھا جاۓ کہ بچے کو کس تہذیب کس معاشرے اور کس کردار کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں- بچے کے ذہن کو سمجھ کر اس کے فہم کے مطابق بات کرنے کا ڈھنگ آجاۓ تو وہ ہر بات سننے اور ماننے کو تیار ہوتا ہے
کہانی سنانے کے لئے کوئی وقت مخصوص نہیں ہوتا- چلتے پھرتے کھانا کھاتے، نہاتے دھوتے غرض کسی بھی وقت کہانی سنائی ہے مثلاً کھانا کھاتے ہوۓ" آہا! میری بیٹی ادھر بیٹھ کر کھانا کھاۓ گی' میری منی بسم الله پڑھے گی- پھر میں اسے چھوٹے چھوٹے لقمے دوں گا- پتہ ہے کیا ہوا ؟ - - ایک دن پیارے نبی (ص) کھانا کھانے لگے' ان کے پاس ایک منا سا بچہ بھی بیٹھا ہوا تھا وہ بھی کھانا کھانے لگا! اس نے بسم الله نہیں پڑھی' پیارے نبی (ص) نے اسے بتایا! اچھے بچے' آرام سے بیٹھ کر' چھوٹے چوتھے لقمے کھاتے ہیں-" اور آپ کو معلوم ہے پیارے نبی (ص) ہمیشہ ہاتھ دھو کر کھانا کھاتے تھے



اسی طرح نہلاتے ہوۓ بھی کہانی سنائی جا سکتی ہے "وہ جی وہ! میرا بیٹا نہاۓ گا! پاک صاف ہو جاۓ گا- پیارے نبی (ص) کہتے تھے جو بچے صاف ہوتے ہیں' جن کے منہ ہاتھ صاف ہوتے ہیں وہ الله میاں کو بڑے اچھے لگتے ہیں- پتہ ہے الله میاں خوش ہوں تو کیا دیتے ہیں؟ - - جی ہاں! مزے مزے کی چیزیں' بڑے بڑے باغ' ان میں جھولے' رنگ برنگی چڑیاں' اور ہاں! وہاں پیارے پیارے پھول بھی ہونگے- فوارے بھی! آہا! آے گا-" یوں بات ہی بات میں اس صاحب مطلوب کی بات کی جاۓ گی تو بچے کو یہ حقیقت ذہن نشین ہو جاۓ گی اسے ہر کام اسی طریقہ سے کرنا ہے جیسے پیارے نبی (ص) کرتے تھے
اس صاحب خلق رحمتہ للعلمین سے محبت کرنے کے لئے ان کی محبت کی کہانیاں سنائیے- مثلاً "ایک درخت تھا ایک پیاری سی سرخ چڑیا نے اس میں اپنا گھر بنا لیا- الله میاں نے اسے ننھے منے دو بچے دئیے- بڑے پیارے سے بچے تھے چوں چوں کرتے بڑے اچھے لگتے تھے- ایک دن اس درخت کے پاس بہت سے لوگ آگئے- ایک آدمی نے چڑیا کے ننھے منے بچے دیکھے' اسے بہت اچھے لگے- اس نے کہا یہ بچے اپنے ننھے سے بیٹے کے لئے لے جاؤں گا- وہ انہیں دیکھے گا' ان کے ساتھ کھیلے گا تو بہت خوش ہوگا- اس نے دونوں بچے اٹھا لئے- چڑیا نے دیکھا کہ اس کے بچے آدمی نے اٹھا لئے ہیں تو وہ روتی ہوئی پیارے نبی (ص) کے پاس آئی چیں چیں کر کے اس نے پیارے نبی(ص) کو بتایا اس کے بچے ایک آدمی نے لے لئے ہیں- پیارے نبی(ص) نے لوگوں سے پوچھا "چڑیا کے بچے کس نے لئے ہیں؟" ایک آدمی نے کہا: " پیارے نبی (ص)! چڑیا کے بچے میں نے لئے ہیں' مجھے چڑیا کے لال لال چھوٹے چھوٹے بچے بڑے اچھے لگے ہیں میں نے لے لئے کہ میرا بیٹا ان سے کھیلے گا؟ پیارے نبی (ص) نے فرمایا: بری بات! چڑیا کے بچے ان کی امی کو دے دو بچے اداس ہو جاتے ہیں' امی بھی اداس ہو جاتی ہیں" آدمی بڑا اچھا تھا- اس نے پیارے نبی (ص) کا کہا مانا چڑیا کے بچے اس کے گھونسلے میں واپس رکھ دیئے- چڑیا نے کہا: پیارے نبی (ص) آپ کا شکریہ' پیارے نبی (ص) کتنے اچھے ہیں' کتنے پیارے ہیں
یوں پیارے نبی (ص) کے حضور شکایات کرنے والی اونٹنی کی کہانی سنائی جا سکتی ہے' رونے والے درخت کی کہانی سنا سکتے ہیں' اونٹوں کی دوڑوں کی کہانی سنا سکتے ہیں- غار ثور کے دھانے پر انڈے دینے والی کبوتری کی کہانی سنا سکتے ہیں- یقیناً آپ (ص) کی ہر کہانی سبق آموز ہے' جن سے بچوں کو ایک اچھا سبق دیا جا سکتا ہے




About the author

Maani-Annex

I am an E-gamer , i play Counter Strike Global Offence and many other online and lan games and also can write quality blogs please subscribe me and share my work.

Subscribe 0
160