کم سنی کی شادیاں - لڑکیوں کے لئے بہت سے مسائل کا اسباب بنتی ہیں

Posted on at



آج کے مہذب اور تعلیم یافتہ معاشرے میں کم سنی کی شادیاں ایک فرسودہ اور برا عمل تصور کیا جاتا ہے اور اب ہمیں اس طرح کی مثالیں مہذب معاشروں میں نہیں ملتی- ٹیکنالوجی اور ترقی کے اس دور میں جہاں لڑکیاں تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنا کیریئر شروع کرتی ہیں، دو سے پانچ سال کام کرنے کے بعد کہیں جا کر وہ ذہنی طور پر زندگی کے ایک نئے رشتے میں خود کو تبدیل کرنے کا سوچتی ہیں- لیکن ہمارے معاشرے کا رویہ ہر طرف سے دباؤ اور تشدد کا شکار ہے- لڑکی کی بلوغت کے پہلے سال میں قدم رکھتے ہی دیہی علاقوں میں اس کے والدین اس کی شادی کے بارے میں فکر مند ہونا شروع جاتے ہیں



پاکستان میں خواتین کو مختلف نوعیت کے بہت سے مسائل کا سامنا ہے- اگرچہ دنیا میں عورت استحصال، جبر اور امتیاز کا شکار تو ہے لیکن پاکستان میں عورت کو ان برائیوں سے کئی زیادہ مظبوط اور شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے- کم سنی میں لڑکیوں کی شادی ان میں سے ایک ہے- کم سنی میں شادی ایک وائرس کی طرح تیزی سے پاکستانی معاشرے میں پھیل رہی ہے خاص طور پر صوبہ سندھ میں اس کی جڑیں بہت مظبوط اندر تک پھیل چکی ہیں- کم سنی کی شادیاں بچوں کے حقوق کے قوانین کے خلاف ہیں اور بین الاقوامی قانون کے مطابق بھی ناپسندیدہ اور نامناسب ہیں جبکہ طبی نقطہ نظر سے بھی ٹھیک نہیں ہیں- کم عمر لڑکیاں جو ابھی دنیا کو سمجھنے کی کوشسش کر رہی ہوتی ہیں وہ کیسے ایک ماں کی ذمہ داریاں سنبھال سکتی ہیں؟
کم سنی میں کی گئی شادیاں بہت سے خاندانی مسائل اور غربت میں اضافے کا سبب بنتی ہیں- ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک کی آبادی کا نصف غربت کی لکیر سے نیچے رہتا ہے- 2012-13 کے اقتصادی سروے کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے- پاکستان کی آبادی کا 48 فیصد بچوں پر مشتمل ہے اور اگر آبادی میں اسی شرح سے اضافہ ہوتا رہا تو یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2050 تک پاکستان دنیا کا پانچواں سب سے بڑا آبادی والا ملک ہو جائے گا- ہم ایک ایسے ملک سے تعلق رکھتے ہیں جہاں غربت اور اس کے نتیجے میں مسائل بہت زیادہ تکلیف دہ ہیں- زندگی کی بنیادی ضروریات جیسے، پینے کا صاف پانی، خوراک، طبی علاج اور ادویات، رہنے کے لئے مضبوط چھت، ہسپتال اور اسکول لوگوں کے لئے مناسب طریقے سے دستیاب نہیں ہیں- اسکول جانے کی عمر میں بچوں کو کام کاج پر لگا دیا جاتا ہے یہاں تک کہ بچوں کی ایک بڑی تعداد پرائمری تعلیم سے محروم ہے- ایسے حالات میں کم سنی کی شادیاں اور پھر کم سن بچیوں کا ماں بننا معاشرے کے مسائل اور آبادی میں اضافے کا سبب بنتے ہیں



ایک تیرہ سال کی لڑکی اس کے خاندان کی ذمہ داری لینے کے لئے نہ تو تیار ہے اور نہ ہی اچھی طرح سے ازدواجی رشتے میں کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے- ڈاکٹروں کے مطابق، کسی بھی لڑکیوں کے لئے یہ اس کی عمر ہے جب اس کا دماغ اور جسم مختلف تبدیلیوں اور مراحل سے گزرتا ہے وہ جسمانی طور پر بالغ اور صحت مند نہیں ہوتی- گاؤں کے قبائلی روایات اور نظام میں گھر کے کام کاج کے ساتھ لڑکی کیلئے ازدواجی حقوق پورا کرنا ضروری ہے اور اگر وہ حاملہ ہے اس وقت بھی اس کو کوئی رعایت نہیں دی جاتی- یہ لڑکیاں کم سِنی میں ناکافی نیند، آرام اور گھریلو کشیدگی کے باعث پیدائشی طور پر خون کی کمی اور کمزور ہڈیوں والے بچے جنم دیتی ہیں
لڑکیوں کی زندگیاں کم سنی میں کی گئی شادیوں کی وجہ سے بہت زیادہ متاثر ہوتی ہیں، حق تعلیم اور ان کی صحت کے حقوق ان سے چھین لئے جاتے ہیں- اس وقت ملک میں شادی کرنے کی عمر کے قانون میں ترمیم کرنے کی سخت ضرورت ہے- یہ اطمینان کی بات ہے کہ سندھ اسمبلی نے 5 مئی کو "کم سنی میں شادیوں پر پابندی کا بل 2014" متفقہ طور پر منظوری دے دی- سماجی تنظیموں اور حکومتی اداروں کو ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے، معاشرے کے خیالات تبدیل کرنے کے لئے اور معاشرے کو صحت مند مائیں دینے کے لئے



About the author

160