جھوٹ اور غلط بیانی ’’حصہ اول‘‘

Posted on at


اللہ تعالی کا ارشاد ہے ’’ اے مومنو اللہ سے ڈرتے رہو اور درست بات کہا کرو اللہ تعالی تمھارے اعمال درست کر دے گا اور تمھارے گناہ معاف کر دے گا‘‘الاحزاب، معنی یا مفہوم کے اعتبار سے ’’قول سدید ‘‘ یا درست بات ایک جامع لفظ ہے جو بات ہر اعتبار سے مذہب کے معیار پر پورا اترتی ہے افراط تفریط سے خالی ، کاٹ چھانٹ باطل کی آمیزش سے محفوظ اور صحیح صورت حال کی ترجمان ہو بے جا حذف و ترمیم کے ذریعے اسے غلط معانی نہ پہنائے گئے ہوں قرآن کریم کی زبان میں ایسی بات کو ’’ قول سدید ‘‘ کہا گیا ہے اور امت مسلمہ کو اس کی تاکید کا حکم دیا گیا ہے

امت مسلمہ اپنی زبان سے ایسی ہی جچی تلی اور صاف ستھری بات کہنے کا اہتمام کریں ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی سنا دی گئی کہ جب آپ کی زبان صالح ہو گی صالح اور پاکیزہ بولنے کی پابندی کریں گے تو آپ کا کردار بھی صالح ہو جائے گا اصلاح اور فلاح کی راہوں پر چلنا اور نیک لوگوں کی پیروی کرنا آپ کے لیے آسان ہو گا حضرت محمد کا ارشاد مبارک ہے ’’ سچ بولنے کا اہتمام کرو ، کیونکہ سچ نیکو کاری کا راستہ دکھاتا ہےاور یہ دونوں چیزیں جنت کی ضامن ہے ‘

جب کہ کسی کو غلط بات پہنچا کر اس کے فکر  وذہن کو بگاڑنا اور اسکی سوچ کو غلط رخ پر ڈال اپنی تمام تر قباحتوں کے ساتھ خود مخاطب کی حق تلفی اور اسکے ساتھ خیانت و بد دیانتی ہے رسولﷺکا ارشاد گرامی ہے ’’ یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات کہو جس میں وہ تمھاری تصدیق کر رہا ہو اور تم خود اسے جھٹلا رہے ہو‘‘ جب صورت حال یہ ہے کہ جن پر اعتماد ہوتا ہے وہ بھی نقصان پہنچا جاتے ہیں تو ان سے غافل رہنا بھی غلط ہے

اور اگر کوئی کیسا بھی قابل اعتبار ہو جب کسی کی آبرو یا جان و مال کو نقصان پہنچانے کی بات کرے تو اس پر شرعی تحقیق کے بغیر کاروائی یا یقین کرنا بڑی نا انصافی و نادانی کی بات ہو گی   جھوٹ بھول کر ، چاپلوسی کر کے کسی کو فریب مین مبتلاء کرنا ایسا بد ترین جرم ہے کہ قرآن وحدیث میں اسے کفر و نفاق کی علامت بتایا گیا ہے ارشد ربانی ہے ’’ اور اللہ تعالی گواہی دیتا ہے کہ منافقین جھوٹے ہیں اور ان منافقین کے لیے دروغ گوئی کی وجہ سے دردناک عذاب تیار کیا گیا ہے ‘‘۔

 



About the author

sss-khan

my name is sss khan

Subscribe 0
160