جھوٹ اور غلط بیانی وہی لوگ کرتے ہیں جو منافقانہ ذہنیت رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے پیارے آقا نبیﷺ کی نظر میں کوئی بھی عمل جھوٹ سے زیادہ قابل نفرت نہیں تھا ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہے آپﷺ سب سے زیادہ نفرت جھوٹ سے تھی جس آدمی کا کوئی جھوٹ آپؐ کی نظر میں آجاتا ، جب تک اسکی توبہ کرنے کی خبر آپ کو نہ مل جاتی تھی وہ آپؐ کے دل و دماغ سے نہیں اترتا تھا
سچائی اللہ تعالی کی صفات حسنہ میں سے ہے اور وہ سارے سچوں اور راست بازوں سے بڑھ کر سچا اور راست باز ہے اسکا چیلنج ہے کہ اس سے بڑھ کر سچا کوئی نہیں ہے ’’ اللہ سے بڑھ کر کون سچا ہو سکتا ہے؟‘‘ یہی وجہ ہے کہ جسے اللہ سے جتنا زیادہ تعلق اور قرب حاصل ہو وہ سچائی سے اتنا ہی زیادہ قریب وہ مانوس اور جھوٹ سے اتنا ہی متنفر و بیزار رہے گا اور جسے اللہ تعالی سے جتنی زیادہ دوری ہے ، وہ جھوٹ کا اتنا ہی دلدادہ اور سچائی کا تنا ہی بڑا دشمن ہے ہو گا جھوٹ کی کوکھ سے نفاق ، کفر ، شرک ، خیانت ، غداری اور وعدہ خلافی جیسی برائیاں جنم لیتی ہیں
رسولﷺ نے فرمایا’’ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ اس کے جھوٹ کی بد بو کی وجہ سے ایک میل دور بھاگ جاتا ہے ‘‘ ترمذی، جو لوگ جھوٹ کی عادت مین ملوث ہوتے ہیں انہیں عموما یا تو کسی شریرے کی شرارت و فتنہ انگیزی کا خوف دامن گیر ہوتا ہے یا کسی کی دوستی دشمنی یا ذاتی مفاد پیش نظر ہو تا ہے جسکی وجہ سے وہ سچائی کا خون کرتے ہیں اسلام نے انسان کے تمام نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے دروغ گوئی کے تما راستون پر پہرے بٹھا دیئے کسی کی دوستی و ہمدردی یا ذاتی مفاد کے پیش نظر جھوت پر پابندی عائد کعتے ہوئے رب العا لمین نے ہدایت فرمائی ، انصاف پر خوب قائم رہنے والے اور اللہ کے واسطے گواہی دینے والے رہو
یعنی اللہ تعالی اور حق و صداقت کے خلاف رعایت و مروت ںہ خود اپنی اور اپنے ذاتی مفاد کی کرو اور نہ ہی اپنے کسی عزیز و بزرگ کی ، صرف حق و صداقت اور احکام شریعت کا لحاظ کرو ایک اور موقع پر فرمایا گیا’’ اور جب بات کہو تو حق کی کہو اگر چہ وہ قرابت داری ہی ہو ‘‘ یعنی ہمیشہ حق کی بات کرو چاہے اس جگہ پر تمھاری رشتہ داری ہی کیوں نہ ہو۔