انسان اور خواہش کا گھوڑا

Posted on at


انسان بھگاتا ہے اور "وہ" بھاگتا ہے اور پھر وقت ایسا آتا ہے جب "وہ" بھاگتا ہے اور انسان بھاگتا ہے. لیکن ہمیشہ بنجاراپن، تھکاوٹ اور دل کی بے چینی انسان کا مقدر بنتی ہے.


تاریخ کائنات گواہ ہے کہ جب بھی ابن آدم نے اسے ارادوں اور اپنی سوچ کو دنیاوی اسباب کی حصول کے لئے صرف کیا تو اس کی کل صلاحیتیں اسی جتن میں لگیں.


عصر حاضرکے انسانوں پر غور کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر فرد نے جیسے ٹھان ہی لیا ہو، خود فراموشی کا، بےمقصد جینے کا، بےسبب ضیاع وقت کا، بے مصرف مشاغل میں محو رہنے کا.تو پھر خواہ وہ انسان اوائل عمر میں ہو ،لڑکپن میں جوانی یا ادھیرپں میں ہو جینے کے رنگ ڈھنگ سب نے ایک ھی رنگریز سے کرا لئے....


بس غلطی اتنی سی ہوئی کہ رنگریز اچھا نہ چنا،  چمکتے رنگوں کے پیچھے بھاگنے والوں نے رنگ کی پائیداری کو تو جانچا ھی نہیں اور جب رنگارنگ زندگی بے رنگ ہونے لگی تو سمجھ آئی کہ پائیداری تو ........... اور اودھے رنگوں میں بھی وقت کی گرد دنیا کی چمک دھمک کو مدہم کر دیتی ہے تو پھر چمکنے والی چیز خواہ سونا ہی کیوں نہ ہو اپنا روپ کھو دیتی ہے.



تو پھر ابن آدم تو کیوں گمراہ ہوتا ہے. تو پھر اشرف  المخلوقات کا درجہ پا کر بھی کیوں بھٹک جاتا ہے تو...... جب راستہ سیدھا اور سامنے ہو تو کیوں تو گھبراتا ہے راستے کی مشکلات سے؟ جب وعدہ ہو مدد اور نصرت کا تو پھر کیوں اندیشوں میں گھرتا ہے؟ جب یقین ہو دنیا کی بے ثباتی کا تو کیوں اس بھول بھلیوں میں کھو جاتا ہے؟ پھر جب معلوم ہو جائے کے راستہ غلط ہے تو پھر ق طنطنہ چھوڑ نہیں دیتا؟ کیوں تو غلطی مان نہیں لیتا؟ کیوں راستہ سیدھا اپنا نہیں لیتا؟ کس چیز کا گھمنڈ ہے؟ کس شے کا تکبر ہے؟


اے بندہ کم فہم جاگ ذرا!


بہت بھاگ لیا دنیا اور دنیا والوں کے لئے اب ذرا! اس کی تو سن جس کی دنیا ہے جس کا تو ہے اور جو تیرا ہے بس وہ الله ہے.


الله تبارک و تعالی نے ابن آدم کو ہر نعمت ہر دولت سے نوازا نعمتیں اتنی کی حساب نہیں دولت اتنی کے شمار نہیں. بس نہیں ہے تو ہم میں احساس نہیں شکر نہیں، عجز نہیں، ہمیں سب مل گیا، ہم نے اپنا مان کے حق سے رکھ لیا. کبھی مڑ کر نہیں سوچا کے دینے والا کچھ تو چاہتا ہو گا ہم سے، پر ہم بس اپنی طلب اور اپنی ہوس دور میں دوڑتے رہے.


قبل از پیدائش سے بعد از موت ہم صرف اپنے لئے مانگتے ہیں کبھی مکمل خوبصورت اولاد، کبھی اچھی نوکری، کبھی بڑا گھر، کبھی نے جوڑے، یہ فہرست لمبی سے لمبی ہوتی جاتی ہے. اور خواہشات ہماری زندگی کے لئے ضروری بن جاتی ہے. اور انسان با خوشی ضرورت اور آسائش کا یہ کھیل آخری دم تک کیھلتا ہے. اور اگر بادل نخواستہ اس سے پہلے احساس ہوجائے تو تب تک ہم خود کو اس طرز زندگی کا اتنا مترادف سمجھنے لگتے ہیں کے بچا کچا وقت اس ادھیڑ پن میں گزرتا ہے کہ کیا تبدیلی آ سکتی ہے....... اور اگر آ سکتی ہے تو کیسے ہے گی.... شروعات کہاں سے کریں تبدیلی لانے کے لئے...... انہی سوالات میں زندگی کی گاڑی موت کے اسٹیشن پر پہنچ جاتی ہے. اور بنی نوح انسان دنگ کھڑا رہ جاتا ہے. بہت سوں کی زندگی یوں ہی بیتتی ہے. زندگی شاندار شہنشاہی اور موت پچھتاووں میں یا ورطہ حیرت میں گھری بس اتنی ھی....... ختم بھی ہو گئی....... ابھی تو جینا شروع کیا....... ابھی تو لطف باقی ہیں........ ابھی کچھ جھمیلنے سمیٹنے ہیں.... ابھی نہیں.... ابھی کیوں.... اسے ھی انجام سے دوچار ہوں گے ہم بھی اگر آج نہیں بدلیں گے خود کو. اگر آج نہیں سمیٹیں گے خود کو اگر آج رنگ سچا اور پکا نہیں چنیں گے تو..... اگر آج اپنی زندگی کی ترجیحات کو نہیں بدلیں گے تو وقت کا پہیہ گھومتا رہے گا......... اور منادی کرے گا کہ ہر دل مضطر..... اب نہیں تو کب..... ہم نہیں تو کون......؟ تبدیلی تب آتی ہے جب جواں خون ابلتا ہے...... جب جوان دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہے........ جو ملتے جواں ارادے بلند نیت صاف سوچ پاکیزہ اور امان قوی ہوتا ہے.



سوال سب سے بس اتنا ہے کے حوا کی بیٹی میں یہ عناصر ہیں؟ کیا حوا کی بیٹی اسلام کے سر نگوں علم کو پھر سر بلند کرے گی؟


ہاں اگر تڑپ سچی ہے اگر لگن میں کھوٹ نہیں اور سینے میں آگ ہے اپنے مقصد کو پا لینے کی تو آدم اور حوا کی بیٹی وہ کارنامے سرانجام دے سکتی ہے جو فعل کو دنگ کر دیں اور حوصلوں  کی بنی داستان رقم کر دیں کاش حوا کی ہر بیٹی دین اسلام کی سر بلندی میں اپنا کردار ادا کر سکے. (آمین)        



About the author

RoshanSitara

Its my hobby

Subscribe 0
160