لاہور پاکستان کا تاریخی شہر

Posted on at


 ہمارے ہاں پاکستان میں لاہور کے بارے میں ایک بات مشہور ہے کہ "جنے لاہور نی دیکھیا او جمیا ہی نئی"۔ جس نے یہ بات کی ہے اس کے پیچھے آخر کوئی تو ایسی وجہ ہوگی جس کی بنا پر لاہور کو اتنی اہمیت دی گئی ہے۔ مجھے ہمیشہ سے شوق رہا ہے کہ میں بھی لاہور جاکر دیکھوں اور وہاں اس بات کی ہونے کی وجہ تلاش کروں۔ لیکن کبھی موقع نہیں ملا لاہور جانے کا کیونکہ جب بھی دوستوں کے ساتھ لاہور کی سیر کا پروگرام بنتا تو کبھی کسی کو گھر سے اجازت نہیں ملتی تو کبھی کوئی مصروف ہوتا۔ اس بار عید الفطر پر بھی میں نے اپنے کچھ دوستوں اور بھائی کے ہمراہ لاہور جانے کے پروگرام بنایا ہوا تھا لیکن ٹائم آتے ہی سب پیچھے ہٹ گئے۔

میرا ایک دوست چائنہ فلاور کا ہول سیل ڈیلر ہے اور اسے ہر مہینے یا دو مہینے بعد سامان لانے کے لیے لاہور جانا پڑتا تھا۔ عید الفطر کے بعد ایک دن میں گراؤنڈ میں کرکٹ کھیل کر فارغ ہوا تو مجھے میرے دوست نے بتایا کہ آج رات وہ لاہور جائے گا۔ میں نے جب یہ سنا تو ایک دم میرے ذہن میں ترکیب سوجھی کہ کیوں نہ میں بھی اس کے ہمراہ لاہور دیکھنے کا شوق پورا کر لوں ۔ میں نے اسے اس خواہش کا اظہار کیا تو وہ بھی خوش ہوا کہ اس بھی کوئی ہم سفر مل جائے گا۔ میں رات 8 بجے گھر آیا اور میں نے امی ابو کو کسی طرح منایا۔ جب وہ مان گئے تو 9 بجے میں تیار ہوکر اپنے بھائی کے ساتھ اپنے دوست کی طرف چلا گیا وہ راستے میں کھڑا تھا۔ پھر وہاں سے میں اور میرا دوست لاہور کے لیے 10 بجے روانہ ہوگئے۔ لاہور کی سیر کا پروگرام جو 18 سال میں نہیں بن سکا وہ 18 منٹ میں بن بھی گیا اور 2 گھنٹے میں روانہ بھی ہوگئے ہم لوگ۔

میرا پروگرام اب سیر کرنے کا کچھ اس طرح تھا کہ صبع لاہور پہنچ کر پورا لاہور دیکھیں گے اور شام کو دوست کا سامان لے کر ایک ہی دن میں واپس گھر بھی آجائیں گے کیونکہ میں اور میرا دوست ٹائم بھی ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔

چنانچہ صبع 5 بجے کے قریب ہم لوگ لاہور کے نیازی بس سٹاپ پر اترے۔ سب سے پہلی بات جو میں نے لاہور جا کر نوٹ کی وہ یہ تھی کہ لاہور میں گرمی بہت زیادہ ہے۔ مطلب میری سیر کا آغاز ہی برا ہوا۔ فریش ہو کر ہم لوگ باغے جناح کی طرف نکل پڑے۔ وہاں جب پہنچے تو دیکھا کہ بہت سے اور لوگ بھی صبع کی سیر کے لیے وہاں آئے ہوئے۔ ہم لوگ چونکہ سفر کی وجہ سے کافی تھکے ہوئے تھے اس لیے وہاں ایک بنچ پر آرام کے لیے بیٹھ گئے۔ وہاں پر تقریبا زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے صبع کی سیر کے لیے موجود تھے۔ وہاں میں نے کچھ فوٹو گرافی کرنے کا سوچا۔ ہمارے ساتھ سب سے پہلی بدقسمتی یہ ہوئی کہ میرے ڈیجیٹل کیمرے کے سیل رات بھر آن رہنے کی وجہ سے ختم ہوگئے۔ اب میں سوچ میں پڑ گیا کہ کیا کروں کیونکہ میری سیر کا خاص مقصد لاہور کو اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنا تھا۔ اب میرے دوست کی اور میری لاکھ کوشش کے باوجود کیمرا آن نہ ہوا۔ تو ہم لوگ بھی وہاں کے رہائشی لوگوں کی طرح پارک میں ایک درخت کے سائے  میں بیٹھ گئے۔



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160