سمیہ ممتاز کے نام ایک خط

Posted on at


 پہلی بات تو یہ ہےکہ مجھے اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے کہ مذہب سے آپ کی کس قدر وابستگی ہے اور اس پہ آپ کتنا یقین رکھتے/رکھتی ہیں، لیکن پاکستانی معاشرے اور (میری ذات ذرہ بے نشاں )میں آپ کے کردار کو سامنے رکھتے ہوئے حسن ظن یہی ہے کہ آپ مذہب سے گہری وابستگی کیساتھ ساتھ اس پر عمل پیرا بھی ہونگی۔ مجھے ذاتی طور پہ بچپن سے ہی ٹی وی وغیرہ میں کافی دلچسپی رہی ہے، لیکن جب سے جنوں پہ خرد نے فتح پائی ہے تب سے اس سے بچنے کی کوشش رہی ہے، لیکن اس عید سے چند روز پہلے حادثاتی طور پہ آپکی ایک سیریل ’’ میری ذات ذرہ بے نشاں‘‘ دیکھنے کا موقع ملا، جس کہ بارے میں اتنا ضرور کہوں گا کہ دیکھتے ہوئے تخیل پہ حقیقت کا گمان چھا جاتا ہے، اور خاص ظور پر آپ کا کردار ایک حقیقت کے سوا کچھ نہیں، خاص طور سے اللہ پاک پر آپ کا توکل اس نے تو مجھے رلایا بھی ہے اور خدائے لم یزل کی طرف متوجہ بھی کیا ہے۔ کیا ان ڈراموں کی وجہ سے معاشرے میں کوئی بہت بڑی تبدیلی لائی جا سکتی ہے؟ میں ذاتی طور پر تو اس سے اتفاق نہیں کر سکتا کیوں کہ مذہب کی تاریخ اس بات پہ شاہد ہے کہ جب بھی کبھی معاشرے میں کوئی بڑی تبدیلی آئی ہے تو فکر آخرت ہی اس کی اصل بنیاد بنی ہے، ہاں کوئی سراب کو پانی سمجھ لے تو وہ اس کی حماقت ہے، لیکن اس کے باوجود میں نے کوئی چار کے قریب لوگوں کو ترغیب دے کر یہ ڈراما دکھایا ہے، اور سب کے سب well known scholars ہیں ۔ اور سب نے آپ کے کردار کو سراہتے ہوئے اس بات کا اقرار کیا کہ واقعی عورت ہمارے معاشرے میں مظلوم ہے، اہل مذہب اور سیکولر دونوں فریق ہی افراط اور تفریط کا شکار ہیں ایک نے بےجا پابندیوں سے اور دوسرے نےعورت کی ذمہ داریاں بڑھا کر عورت پہ ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں۔ لیکن ایک بات جو پریشانی کا سبب بنی وہ ڈرامے میں آپ کو تین طلاق ایک ساتھ دینا ہےاور اکثر اسی بات پہ فکر مند بھی رہتا ہوں، کہ یہ ہمارے معاشرے کا وہ ناسور ہے جس کے بارے میں ہم جیسے مذہب کے ٹھیکیداروں نے تو چپ سادہی ہوئی ہے، وہیں پہ میڈیا بھی عملا ہمارا حامی ہی ہے اور دونوں ہی تباہی کے دہانے پہ پہنچا کرکسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ گزارش ہے کہ اگر کسی طریقے سے اسلامی نقطہ نظر کو سامنے رکھ کر کوئی ناول نگار یا کوئی اور اس طلاق کے معاملے کو میڈیا پہ لائےتو اس کے خاطر خواہ مثبت نتائج برآمد ہونگے، کیونکہ اسلام کا تحقیقی مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ یہ کائنات کے خالق کی طرف سے انسان کے لئے دنیا اور آخرت میں کامیابی کا نسخہ کیمیا ہے، لیکن ہماری نادانیوں کی وجہ سے آج انسانیت اس ابدی کامیابی کے ثمرات سے محروم ہے۔ میرا خیال ہے کہ مذہب طلاق کے بارے میں جو نقطہ نظر رکھتا ہے اگر اس کے ثمرات کسی کہانی کی صورت میں میڈیا پر آ جائیں تو جہاں لوگوں کے گھر اجڑنے سے بچیں گے وہیں عورت پر ہونے والے مظالم میں خاطر خواہ کمی بھی ہو سکتی ہے۔ اس کا کچھ خاکہ میرے ذہن میں ہے اگر آپ کہیں تو میں آپ سے بھی شیئر بھی کر سکتا ہوں، یا مجھے آپی عمیرہ کا کوئی رابطہ نمبر دے دیں ،( مجھے FB پہ ان کے سارے اکاؤنٹ جالی لگتے ہیں میں ان سے شیئر کر لوں گا، خود لکھنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ باقی اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم سب کو موت کے بعد آنے والی زندگی کی تیاری کرنے کی توفیق دے اور خاص طور پر اس دن کے لئے کہ وہ جب آئے گا تو سارے زمین و آسمان کو الٹ دے گا، پھر وہ خدا ایک نئی دنیا بنائے گا، جہاں سچ ، سچ کی شکل میں ظاہر ہوگااور جھوٹ جھوٹ کی شکل میں ، کوئی نہ خود دھوکے میں رہے گا ، اور نہ دوسرے کسی کو دھوکہ دے سکے گا، نہ کسی کا زور چلے گا اور نہ کسی کی سفارش کام آئے گی، اس دن الفاظ کے گھروندے بکھر جائیں گے، جھوٹے فلسفے بے دلیل ثابت ہونگے، فرضی امیدیں دھوکا دے دیں گی، اقتدار کچھ کام نہ آئے گا، خود ساختہ بت جواب دے دیں گے، آہ! انسان کس قدر بے سہارا ہوگا اس روز، حالانکہ اس روز اس کو سب سے زیادہ سہارے کی ضرورت ہوگی، وہ کتنا محروم ہوگا ، اس روز، حالانکہ وہ اسی دن سب سے زیادہ پانے کا محتاج ہوگا۔ اللہ پاک ہم سب کو اس دن اپنے عرش کا سایہ نصیب فرمائے، آمین۔



About the author

Ihtasham-Zahid

I am student of Electronics Engineering in International Islamic University Islamabad.

Subscribe 0
160