ہم سب اللہ تعالی کا جس قدر بھی شکر ادا کریں وہ کم ہے کہ اس ذات پاک نے ہمیں اپنے پسندیدہ دین پر پیدا فرمایا تخلیق کائنات کی ابتدا سے آج اس لمحے تک جو کچھ بھی اس نے پیدا فرمایا ہے انسان کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے پیدا فرمایا ہے مگر ان نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت رشد وہدایت اور خود اللہ تعالی کا قرب لقاء و دیدار ہے رشد و ہدایت ہی وہ نعمت کبریٰ ہے جس کے لیے تمام انبیاء و رسل مبعث فرمائے گئے اور جس کے حصول کی دعا ہم ہر سورۃ فاتحہ شریف میں مانگتے ہیں اور پورا قرآن شریف اسی دعا کا ثمر وجواب ہے
مگر یاد رہے کہ رشد وہدایت کے حصول کی پہلی شرط اخلاص نیت ہوتی ہے اور دوسری شرط کسی ہادی و مرشد کی سرپرستی وسربراہی ہوتی ہے تیسری شرط رشد وہدایت کا الہامی یعنی من جانب اللہ ہونا ہے اور چوتی شرط ہدایت آنے کے بعد اس پر استقلال کے ساتھ عمل پیرا ہونا ہے عمل نہ ہو تو ہدایت سلب ہو جاتی ہے
قرآن کریم وہ کتاب عظیم ہے جو کسی بھی قسم کے ریب سے مبرا اور سراسر نور ہی نور ہے مگر ہدایت کی روشنی اسی کو میسر آتی ہے جو تقوی اخیتار کرے غیب پر ایمان لائے نمازیں قائم کرے اور اللہ تعالی کے دیئے ہوئے رزق میں سے خرچ کرے حق چھپانے والوں کے دل انکے کفر کے سبب سیل کر دیے جاتے ہیں اور سخت عذاب انکا مقدار بن جاتا ہے
آیات کی تلاوت تزکیہ نفس سے خالی ہو تو انسان ادھورا رہ جاتاہے کتاب و حکمت کا نور میسر نہ آئے تو انسان اندھا اٹھایا جاتا ہے مکارم اخلاق کی تکمیل نہ ہو تو مذہب بیکار ہو جاتا ہے حضورﷺ مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیے گئے اور دین اسلام کو تحفظ و سلامتی ، امن و اخوت ، عالمگیر محبت و صداقت کے امین کا درجہ عطا ہوا اسلام پور انسانیت کے لیے امن و سلامتی راحت وا سکون کا پیغام ہے اور’’ منکرین اسلام اللہ رب العزت کی نظر میں چوپائیوں کی طرح ہے بلکہ ان سے بھی بدتر‘‘(الاعراف)۔