معرکہ عقل و عشق

Posted on at


                    ..................................................................................................................................................................................................


معرکہ عقل و عشق
انسان جب آنکھیں کھولتا ہے تو اسے باہر ایک عجیب لا محدود کائنات نظر آتی ہے پھر ذرا اپنے اندر غور کرتا ہے تو پھر اسے وہاں بھی ایک لا متناہی دنیا دکھائی دیتی ہے ۔ گویا کائنات دو حصوں میں منقسم ہے ایک بیرونی عالم اور دوسرے اندرونی دنیا۔ قرآنی اصطلاح میں اول کو آفاق اور ثانی کو انفس کہتے ہیں(سنريهم آياتنا في الآفاق و في أنفسهم) اس وقت عالم آفاق پر کوئی بحث کرنا مقصود نہیں۔ عالم انفس اپنے اندر بے شمار دنیائیں رکھتا ہے۔ ان سب پر گفتگو بھی اس وقت پیش نظر نہیں۔ صرف دو ایسے عالموں کو دیکھنا ہے جو انفس کی کائنات کے لئے بڑی اساسی حیثیت رکھتے ہیں ان دونوں کا نام ہے عقل اور عشق۔
بسا اوقات عقل ایسا فیصلہ دیتی ہے جو عشق کے فیصلے کے خلاف ہوتا ہے اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ عشق کے فیصلے سے عقل ابا کرتی ہے لیکن یہ دونوں عناصر انسان کے لئے یکساں ضروری ہیں۔ عقل نہ ہو تو زندگی کا کوئی پروگرام نہیں بن سکتا ۔ اور عشق نہ ہو تو کسی پروگرام کی تکمیل کے لئے قدم نہیں اٹھ سکتا۔ تنہا تنہا دونوں ہی ناقص ہیں اور اگر دونوں میں حسین اور متناسب امتزاج ہو تو زندگی معراج حاصل کر لیتی ہے۔ ععقل سارے کارخانہ زندگی کو چلانے کانقشہ بناتی ہے مگر یہ حیلہ گر ہوتی ہے، ہر صحیح اور غلط کے لئے توجیہہ (justification) تلاش کر لیتی ہے۔ بعض اوقات صداقت و حقیقت کا خون کر دیتی ہے۔ عشق ایک سمندر ہوتا ہے جذبات کا یہی زندگی میں حرکت پیدا کرتا ہے یہ ختم ہو جائے تو عقل کے بنائے ہوئے سارے نقشے بیکار ہو جاتے ہیں مگر ساتھ یہ بھی صحیح ہے کہ عشق اندھا ہوتا ہے۔ عشق کا وظیفہ عمل تو ہے لیکن انتخاب راہ عشق کا کام نہیں۔ یہ وظیف عقل ہے ۔ آپ گھر کا بجٹ بناتے ہیں عقل سے اس میں جذبات عشق کار فرما نہیں ہوتے، لیکن اپنی اولاد سے جو محبت کرتے ہیں وہ عقل کا تقاضا نہیں ہوتی یہ صرف ایک جذبہ ہوتا ہے عقلی موشگافیوں سے بالا تر ۔ عقل قانون بناتی ہے جس کے بغیر معاشرہ برقرار نہیں رہ سکتا لیکن اقدار کی محبت عقلی قانون سے بالا تر ہوتی ہے ۔



ضروری عقل بھی ہے اور عشق بھی اور قدر الأقدار یعنی خدا سے بندے کا تعلق کچھ ایسا ہونا چاہیے جو عقلی بھی ہو اور عشقی بھی۔ انبیاء علیہم السلام نے ان دونوں راہوں سے چل کی حقیقۃ الحقائق(خدا) تک پہنچنے کا طریقہ بتایا ہے ، سکھایا ہے اور عملی نمونہ دکھایا ہے۔ کیونکہ ایک کے بغیر دوسرا نامکمل ہوتا ہے ہمیں تنہا عقل کے حوالے نہیں کیا گیا ، اگر عقل محض کے سہارے چلنا کافی ہوتا تو رومی یہ کیوں کہتا کہ؎
می شناسد ہر کہ از سر محرم است
زیر کی ز ابلیس و عشق از آدم است
عشق ایک سرپٹ دوڑنے والا راہو ار ہے اور عقل اس کی لگام، اگر لگام نہ ہو تو راہوار کسی خندق میں جا گرے گا لیکن بعض اوقات عقل حیلہ گر خود ہی ایک جامد و ساکن راہوار بن جاتی ہے پھر صرف عشق ہی ہوتا ہے جو مہمیز کا کام کرتا ہے۔ تکمیل مقصد نہ اس کے بغیر ہوتی ہے اور نہ اس کے بغیر۔ اس لئتے اس کا حسین امتزاج یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہوں ۔ عشق بہکے تو عقل لگام دے اور عقل سست گام ہو تو عشق مہمیز لگائے ۔ عقل ایک صحیح راہ تجویز کرے اور عشق اس پر چلائے دونوں کے وظیفے الگ الگ مگر ایک ساتھ ہوں یہ ہے خلاصہ تعلیمات انبیاء کا۔
قرآن پاک ایک طرف بار بار عقل کی دعوت دیتا ہے (لعلكم تعقلون، أفلا تعقلون) مگر سارا معاملہ عقل پر ہی نہیں چھوڑتا وہ محبت کے جذبات کو بھی ابھارتا ہے (والذين آمنوا أشد حبا لله)
حج اور اس کے مناسک ایسی ہی عبادت ہیں جو دوسری عبادات کی طرح بے شمار عقلی عنصر رکھتے ہیں لیکن اس میں جو جذبہ عشق کی آمیزش ہے وہ دوسری تمام عبادات سے زیادہ ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے حج سراپا تعلیم عشق ہے ۔ عشق کا درس اور عشق کی مشق ہے۔


Continued....................................................................................................................................................................................



About the author

Ihtasham-Zahid

I am student of Electronics Engineering in International Islamic University Islamabad.

Subscribe 0
160